rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
غیبت ایک کبیرہ گناہ ہے اور اس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔یہ عمل دینی لحاظ سے بھی نقصان دہ ہے اور اخلاقی و سماجی لحاظ سے بھی سخت نقصان دہ ہے۔غیبت سےفتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے،اس لیے اسلام میں اس کو منع کردیا گیا ہے۔قرآن میں غیبت کو مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے”اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے،کیا تم میں سے کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اسے ناپسند کرو گے اور اللہ سے ڈرو۔بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے”(سورة الحجرات۔ 12)درج بالا آیت سے اچھی طرح علم ہو جاتا ہے کہ غیبت کتنی بڑی برائی ہے۔قرآن مجید میں ایک اور جگہ پر ارشاد باری تعالی ہے”جو لوگ مومنوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے”(النور)لازمی بات ہے غیبت کرنے والافتنہ و فساد پھیلانے کے علاوہ بے حیائی بھی پھیلاتا ہے،جو کہ اللہ کو سخت نا پسند ہے۔اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح طور پرلکھ دیا ہے کہ وہ دنیا میں بھی رسوا ہوگا اورآخرت میں بھی درد ناک عذاب حاصل کرے گا۔قرآنی تعلیمات واضح کر رہی ہیں کہ غیبت اللہ تعالی کو سخت نا پسند ہےاور اللہ یہ بھی نہیں چاہتا یہ مسلمان ایک دوسرے کی غیبت کریں۔اس لیے سختی سے اسلام میں تاکید کی گئی ہے کہ ہر حال میں غیبت سے اجتناب برتا جائے۔
احادیث میں بھی غیبت سےسختی سے منع کیا گیا ہے۔بعض غیبت کرنے والے افراد سمجھتے ہیں کہ وہ ایک اچھا فعل کر رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اللہ کی ناراضگی حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔غیبت کیا ہے؟ایک حدیث کے مطابق”غیبت یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کہو جو اسے ناگوار ہو”(مسلم)اگر کسی مسلمان بھائی کی غیبت کی گئی ہوتو بہتر یہی ہے کہ اس سے معافی مانگ لی جائے،تاکہ آخرت کے عذاب سے بچا جا سکے۔غیبت کرنے والا کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرتا ہے،کیونکہ غیبت کسی کی بےعزتی کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔حدیث میں مسلمان بھائی کی عزت یاکسی اور معاملے میں حق تلفی کرنے والے کو تاکید کی گئی ہے کہ معافی مانگ لی جائے تاکہ قیامت کے دن عذاب نہ برداشت کرنا پڑے۔ایک حدیث کے مطابق”جس کے پاس اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور معاملے میں حق تلفی ہو،تو وہ قیامت سے پہلے ہی اس سے معافی مانگ لے کیونکہ قیامت کے دن دینار اور درہم کام نہیں آئیں گے”(بخاری)غیبت اتنا کبیرہ گناہ ہے کہ اس سے نیکیاں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔اگر کسی کے پاس بے شمار نیکیاں ہوں لیکن وہ غیبت کرتا ہو تو اس کی ساری نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں.مفلس اس کو سمجھا جاتا ہے جس کے پاس دولت نہ ہو لیکن قیامت کے دن مفلس وہ ہوگا جس کی نیکیاں ضائع ہو چکی ہوں گی۔حدیث کے مطابق”ایک مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نیکیاں لے کرآئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی کی عزت پر حملہ کیا ہوگا یا غیبت کی ہوگی،تو اس کی نیکیاں ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن پر اس نے ظلم کیا تھا”(مسلم)
غیبت کرنے والا دوسروں کے عیب ڈھونڈتا رہتا ہے اور ایسا فعل اللہ کو سخت ناپسند ہے۔عیب ڈھونڈنے والے کو اللہ تعالی بھی رسوا کر دیتے ہیں۔ایک حدیث کے مطابق”جو شخص دوسروں کے عیب ڈھونڈتا اور ظاہر کرتا ہے تو اللہ تعالی خود اس کو اس کے اپنے گھر میں رسوا کر دیتاہے”(ترمذی)اگر ایک فرد کسی کےعیب نہیں ڈھونڈتا، اگر اس کو کسی کےعیب کاعلم ہو جائے تو وہ چھپا دیتا ہے،تو بدلے میں اللہ تعالی اس کے قیامت کے دن عیب چھپا دے گا۔ایک حدیث کے مطابق،ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جو بندہ دنیا میں کسی کےعیب کو چھپائے گا تو قیامت کے دن اللہ تعالی اس کے عیب چھپائے گا”۔(مسلم)
غیبت ایک ایسی برائی ہے جس سے معاشرے میں امن و سکون تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔امن و سکون کے علاوہ بے حیائی بھی پھیلتی ہےاور معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔اخلاقی لحاظ سے بھی غیبت کوسخت ہے نا پسند کیا جاتا ہے۔غیبت کرنے والا فرد معاشرے میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی کوئی عزت باقی نہیں رہتی۔ایک فرد اگر غیبت جیسی برائی میں مبتلا ہو چکا ہے تو اس کو چاہیے فوری طور پر توبہ کرےاور اس شخص سے معافی مانگے جس کی غیبت کی گئی ہے۔غیبت سے نفرتیں پیدا ہوتی ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں۔مسلمان کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ اس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہتے ہیں،اگر غیبت کی جائے تو دوسرے مسلمان کو تکلیف ہوگی۔غیبت کرنے والا معاشرے میں ذلت اٹھاتا رہتا ہےاور اس کے قول و فعل کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔غیبت کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی تاکہ معاشرہ بہتری کی طرف بڑھتا رہے۔اخلاقی لحاظ سے بھی غیبت کو ناپسندیدہ قرار دینا ہوگا،بصورت دیگر مسائل میں اضافہ ہوگا۔