تازہ ترین / Latest
  Wednesday, January 22nd 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

آئینی ترامیم کیا ہے؟

Articles , Snippets , / Monday, January 20th, 2025

میں آپ کو بتاتا چلوں کہ آئین اور قانون کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان سپیکر قومی اسمبلی کے حکم ماننے کے پابند نہیں ہوتے الیکشن کمیشن آف پاکستان آرٹیکل 175 کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے پابند ہے وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے لئے تین ججوں کے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی کے ذریعے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے سات دن پہلے وزیر اعظم کو بھیجے گئے تھے آئینی بل میں تجویز دی گئی تھی کہ آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تقرری وزیر اعظم کی سفارش پرصدر پاکستان کرے گے سپریم جوڈیشل کونسل اور ججز کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کی فارمیشن تبدیل کرنے کی تجویز بھی لائی جارہی ہے اس کے علاوہ آئینی عدالت بنانے کا بھی ذکر کیا گیا جس میں صرف آئینی معاملات ہی بھیجے جائیں گے مزید معاملات یہ ہیں کہ سیکرٹری سپریم کورٹ بار نے 26 ویں آئینی ترمیم چیلنج کر دی سیکرٹری سپریم کورٹ بار سلمان منصور نے 26 ویں آئینی ترمیم چیلنج کر دی۔سیکرٹری سپریم کورٹ بار کی درخواست میں 26 ویں آئینی ترمیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی درخواست میں ججز تعداد میں اضافہ اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں ترمیم بھی کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ آئینی ترمیم بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں سے براہ راست متصادم ہے، جوڈیشل کمیشن میں ایگزیکٹیو کی اکثریت عدلیہ کے امور میں مداخلت ہے۔سیکرٹری سپریم کورٹ بار کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے لیے اپنایا گیا طریقہ کار بھی کسی صورت جمہوری نہیں تھا، متعدد ارکان پارلیمنٹ نے دباؤ ڈالے جانے اور اغواء کیے جانے کے الزامات عائد کیے۔ القادر ٹرسٹ کیس کو تھوڑا سمجھ لیجیے۔ القادر ٹرسٹ میں عمران خان اور بشریٰ عمران ٹرسٹی ہیں جن پہ نیب کا کرپشن کیس ہے۔ پہلی بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ ٹرسٹ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتا یہاں تک کہ ٹرسٹ ختم بھی ہو جائے تو ٹرسٹی یا اس کی اولاد کو بھی اس سے کچھ نہیں ملتا یعنی القادر ٹرسٹ سے عمران خان اور بشریٰ عمران کو ایک ٹکے کا فائدہ نہ ہوا ، نہ ہو سکتا ہے۔ معاملہ شروع ہوتا ہے برطانیہ سے جہاں عمران خان کی حکومت اور ملک ریاض کے درمیان کیس چل رہا تھا اور یوں حکومتی کوششوں سے 190 ملین پاؤنڈ ( تقریبا ساٹھ ارب روپے ) کی رقم منجمد ہوئی تھی۔ اس رقم کو پاکستان لانے کےلئے ایک لمبی قانونی جنگ درکار تھی جس پہ وکلاء اور عدالتی خرچے الگ تھے اور رقم واپس آنے کی یقین دہانی پھر بھی نہیں تھی ۔ ان حالات میں ملک ریاض کے ساتھ حکومت نے ایک تصفیہ کیا۔ طے ہوا کہ چونکہ یہ رقم ملکی خزانے میں لانے کےلیے قانونی جنگ درکار ہے لہذا کابینہ میں تجویز پیش کی گئی کہ ملک ریاض کے خلاف کیس نہ لڑا جائے اور وہ اس رقم کے عوض 60 ارب روپے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دے۔ کابینہ نے منظوری دی تو قانونی طریقے سے یہ تصفیہ ہو گیا۔ ملک ریاض نے یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جس کا اعتراف نیب گواہان خود کر چکے ہیں۔ جب یہ رقم عمران خان یا بشریٰ عمران خان کے کسی اکاؤنٹ میں آئی ہی نہیں تو نیب کیس سرے سے بنتا ہی نہیں کیونکہ یہ کرپشن کیس ہے ہی نہیں۔ اب اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے جہاں سپریم کورٹ میں اس رقم کے جمع کرنے کا قانونی جواز فراہم کرنا تھا۔ اب سپریم کورٹ تو حکومتی تصفیے سے حاصل کرنے والی رقم لینے سے رہی لہذا بحریہ ٹاؤن کے سپریم کورٹ کو واجب الادا رقم کے اندر اس ساٹھ ارب کو ایڈجسٹ کیا گیا ۔ اب دیکھا جائے تو ملک ریاض نے تو کچھ کھویا ہی نہیں کیونکہ یہ رقم تو ویسے بھی اسے سپریم کورٹ کو ادا کرنی تھی۔ تصفیے کے اگلے حصے میں کابینہ کی منظوری سے ملک ریاض نے ساٹھ ارب روپے کی ملکیت کی زمین القادر ٹرسٹ کےلیے عطیہ کرنی تھی اور اس نے چار سو کنال اراضی القادر ٹرسٹ کو منتقل کی۔ ایک بار پھر یاد رکھیں کہ عدالت میں نیب نے تسلیم کیا کہ یہ زمین خالصتاً ٹرسٹ کو منتقل ہوئی ہے ۔ عمران خان یا بشریٰ عمران کو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ایک مرلہ بھی کہیں منتقل نہیں ہوئی نہ انکے اکاؤنٹ میں ایک روپیہ بھی آیا ۔ القادر ٹرسٹ کیس بنایا گیا تو پہلا کیس اس بنیاد پہ بنا کہ عمران خان نے ملک ریاض سے ساٹھ ارب روپے ڈیل کر کے لیے ہیں ۔ پھر نیب ریفرنس میں بشریٰ عمران کو شامل کیا گیا اور الزام تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے بشری عمران کے نام اربوں روپے کی اراضی منتقل کی ہے۔ اب یہ دونوں الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں اور نیب گواہان بھی یہ تسلیم کر چکے ہیں۔ دیگر بوگس کیسز کی طرح القادر ٹرسٹ کیس بھی ایک انتہائی بوگس کیس ہے اور اس میں کنٹرولڈ عدالت سے فیصلہ تو عمران خان کے خلاف آ جائے گا لیکن سائفر کیس کی طرح وفاقی عدالت میں جاتے ہی اس کیس نے اڑ جانا ہے کیونکہ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ القادر یونیورسٹی بھی ان کی ذات کےلیے ہرگز نہیں ۔ اس حوالے سے حکومت کی یہ آخری چال بھی انجام کو پہنچی ہے بات ختم نہیں ہوئی عمران خان کو 14 سال کی سزا ہوئی اور عمران خان کی بیوی کو 7 سال کی قید ہوئی میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ عمران خان کو 14 سال سزا سنائی گئی اور سابقہ وفاقی کابینہ کو سزا کیوں نہ ہوئی ؟ کیا عمران خان کی بیوی کابینہ کا حصہ تھی ؟


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International