آذاد کشمیر میں ریاستی حکومت کے اقدامات سے ھر مکاتب فکر نالاں اور بے زار آخر کیا وجہ ھے اسے کون سے عوامل ھیں جس سے ھر طرف افراتفری بیچینی پھیلی ھوئی ھے اس سے قبل بھی مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والی حکومتیں بھی گزری ھیں ان سے بھی لوگوں کو شکایات رھی ھوں گی مگر کچھ طبقات مطمئن بھی نظر آتے تھے مگر آذاد کشمیر میں بڑوں کا یہ تجربہ مکمل طور ناکام اسکرپٹ سے فلم اور کردار فلاپ نظر آرھے ھیں سمجھ نہیں ارھا ایسے تجربات سے کیا حاصل کرنا مقصود تھا مگر موجودہ حکومت نے جی بھر کر بدعاہیں تنقید لعن طعن بدرجہ اتم سمیٹی ھیں سب سے زیادہ بے رحمی کا شکار پینشنرز ھوے جب ریاستی پالیسی کے تحت بہو بیوہ بیٹیوں کو پینشن کے حق سے محروم کر دیا گیا اس سے بھی قابل افسوس امر یہ رھا کہ کسی بھی حکومتی فورم پر اس مسلہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا نہ حل کی جانب پیش رفت ھوئی پینشنرز ایسوسی ایشن آذاد کشمیر جس روح رواں راجہ ممتاز اور بشیر ڈار بھی اپنے اس جدوجہد تاحال مصروف عمل ہیں اور پوری ثابت قدمی سے ڈٹے ھوے بھی ھیں اس عظیم جدوجہد پر داد تحسین ان کا حق ھے جو نا مساعد حالات کے باوجود ایک مظلوم طبقہ کی ترجمانی کا حق ادا کر رہے ہیں دوسری طرف عارضی ایڈھاک ملازمین بھی سراپا احتجاج بنے ھوے ھیں کئی ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ان کے مسائل جوں جوں کے توں موجود ہیں کئی ماہ کی تنخواہیں سے محروم لوگ بے بسی لاچارگی کی عملی تفسیر بنے مصروف جدوجہد ھیں مگر ایک حکومت ھے جو ٹس سے مس نہیں ھو رھی لگ ایسے رھا ھے آذاد کشمیر میں چوں چوں کا مربہ حکومت صرف اسٹیٹس انجوائے کرنے آئی ھے انہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں لانے والے بھی شاید ان سے تنگ ھی نظر آتے ھیں انھوں نے بھی انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا لگ ایسے ھی رھا ھے یہ کشتی اپنی نااھلی کے وزن سے خود ھی ڈوبے گی جلد بدیر ایسا ھونے کے اشارے بھی مل رھے ھیں وزارت اعظمیٰ کے حصول کے لیے کئی سیاسی مسافر اس وقت سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں اپنی مرکزی قیادت کی خوشنودی کے دن رات ایک کر رے ھیں شاید قرعہ فال ان کے نام نکل اے مگر بد قسمت صرف اور صرف یہاں کے عوام ھیں جن کا کوئی والی وارث نہیں حتی کہ جائز مسائل کو سننے والا میسر نہیں جہاں یہ سب کچھ ھو رھا ھے اور ھم سہہ بھی رھے کچھ چیزیں خوش آیند بھی ھو رھی ھیں اس کرپشن زدہ معاشرے جس کے ھم عادی ھو چکیوھاں رحمت خداوندی سے ان ادروں میں کچھ بیداری دیکھنے میں آرھی ھے کچھ طاقت کا محور سمجھے جانے والوں پر قانون کی گرفت پڑی ھے کئی برسوں سے غیر موثر احتساب بیورو میں حرکت کے آثار نظر سے ھیں محکمہ اینٹی کرپشن جیسے کرپشن سے کوئی دلچسپی نہیں تھی متحرک نظر ارھا کرپشن کے کئی کرداروں کو قرار واقعی سزا دلوانے میں کامیاب رھا ھے اس کی بڑی وجہ ان ادروں صاحب کردار افراد کی تعیناتی ھے ھماری بدقسمتی رھی ھے ھم نے ایسے اداروں میں چاپلوس نااھل لوگوں کو تعینات رکھا جو صرف ان عہدوں سے حاصل کردہ سہولیات اور تنخواہیں اور اختیار پر ھی نازاں رھے اداروں اور عوامی بہتری کے لیے کچھ نہ کر سکے ان حالات کا دیکھ کر رحمت خداوندی سے یہ امید رکھی جا سکتی ھے اللہ پاک مذید بہتری کرے گا باقی عوامی دکھ درد کے دعویدار اپنی وزارتوں اور عہدوں سے عوام کو مایوس کر چکے ھیں اتنے بڑے عہدوں پر تعینات چھوٹی سوچ کے لوگ صرف اپنے حلقہ اور حواریوں کو خوش رکھنے میں مصروف ہیں ان سیاست میں وھی روایتی پن نظر ارھا ھے حکومتی وسائل یا تو ان کے خاندانوں کے لیے یا خوش امدیوں تک محدود ھو چکے حالانکہ ریاست میں بسنے والے لوگ سب ان کی زمہ داری میں آتے ھیں بہر حال جلد بدیر ھر کوئی انجام کی طرف بڑھ رھا اچھے اعمال والے اچھا صلہ پاہیں گے اور برے کے بر ا ھی ھو گا یہی قدرت کا اٹل اصول ھے۔
Leave a Reply