از قلم ماریہ شعبان
بیٹیوں سے ڈر نہیں لگتا صاحب
بیٹیوں کے نصیب سے لگتا ہے ۔۔۔
کائنات کا سب سے انمول اور مقدس رشتہ ایک باپ اور بیٹی کا ہوتا ہے۔فرمان مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم ہے” جس شخص کو اللّٰہ نے بیٹیاں دیں اور اس نے ان کی اچھی پر ورش و تربیت کی تو قیامت کے دن وہ میرے ساتھ ہو گا”۔جسےقدرت نے بڑے کمال سے سمیٹ رکھا ہے مگر کبھی کبھی اس تعلق کو بھی لرزنا پڑتا ہے ،زندگی کی ستم ظریفی یہاں بھی سر اٹھا لیتی ہیں ۔ایک باپ سے زیادہ بیٹی کا خیر خواہ ،دوست،ہمدرد،غمخوار اور محافظ کوئی اور نہیں ہو سکتا مگر ایسا بھی ہو جاتا ہے جہاں محافظ سے حفاظت ،غمخوار سے غمخواری اور ہمدرد سے ہمدردی میں تھوڑی سی چوک بیٹی کے لیے کئی جنگوں کا محاذ کھول دیتی ہے ۔ہمارے معاشرے میں ایک لوئر مڈل کلاس سے لے کر ایلیٹ کلاس تک ہر باپ اپنی بیٹی کی اچھی نشوونما و تربیت کے لیے کوشاں رہتا ہے ۔وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ اس کی بیٹی ہر معاشرے میں ہر میدان میں کامیاب و کامران رہے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کے رنج و الم اور اذیتوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی بیٹی کے شب وروز کو بہتر بنانے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے سے گریز نہیں کرتا ۔اس کے باوجود وہ اپنی بیٹی کے نصیب سے نہیں لڑ سکتا ۔ہمارے معاشرے کے سو کالڈ سٹیٹس کے سامنے ہار جاتا ہے ۔موجودہ سروے کے مطابق پاکستان میں عورتوں کی اکثریت میں وہ ہیں جو اپنے ماں باپ کی دہلیز پر بیٹھی کسی رشتے کا انتظار کر رہی ہیں ۔ان میں ان عورتوں کی گنتی زیادہ ہے جو پڑھی لکھی اور جابز ہولڈر ہیں ۔مگر سٹیٹس میچ ،رشتے والوں کی طرف سے غیر ضروری ڈیمانڈز اور شرائط اکثر ایک بیٹی کا گھر بسنے سے پہلے ہی اجاڑ دیتے اور ایک باپ ہار جاتا ہے ۔اور اگر بیٹی کا رشتہ آ بھی جائے تو جہیز جیسی لعنت ایک باپ کے آڑے آ جاتی ہے اور مڈل کلاس باپ پھر سے ہار جاتا ہے ۔وہ باپ جس نے بچپن سے لڑکپن اور جوانی تک بیٹی کے لیے مالی کی طرح اپنی زندگی گزاری۔معاشرے کی تپش و تاریکی سے اپنی بیٹی کو بچایا وہ باپ واقعی اپنی بیٹی کے نصیب سے ہار جاتا ہے ۔اب فیصلہ آپ کریں کہ جس طرح ایک مالی بیج کو پروان چڑھانے کے بعد اسکی حفاظت اور نشوونما کے لیے دن رات ایک کر دیتا ہے کیا اس کا حق نہیں کہ وہ بیج سے پودا اور پھر درخت کو پھلتا پھولتا دیکھے اسی طرح باپ بھی تو اپنی بیٹی کو خوش اور مطمئن دیکھنا چاہتا ہے ،کیا اس کا حق نہیں ہے اپنی بیٹی کے لیے حسین خواب دیکھنا ؟اور یہ تب تک نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے معاشرے کی دقیانوسی ،لالچی،خودغرض اور بے حس سوچ ختم نہ ہو گی اور یہ صرف نبی خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے احکامات اور اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ممکن ہے۔ اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ ہر بیٹی کا نصیب اچھا کرے اور کوئی بھی بیٹی اپنے باپ کے لیے بوجھ نہ بنے ( آمین)
Leave a Reply