rki.news
کر کملی کو پار وے سائیاں
بس تو ہی درکار ہے سائیاں
ہجر کے پھول میں روز ہوں چنتی
دل کے زخم بھی روز ہوں گنتی
جب میں ہوں بس تیری منگتی
تیری خدائی کیوں نہیں سنتی
میرے لیکھ سنوار دے سائیاں
بس تو ہی درکار ہے سائیاں
تن کی ڈھیری، من کی مایا
جب سے میں نے تجھے بھلایا
اپنا آپ ہے، آپ گنوایا
مجھ سے بچھڑ ا میرا سایہ
میرے من کو نکھار دے سائیاں
بس تو ہی درکار ہے سائیاں
دکھ سے تن پر ماس نہیں ہے
اپنا سایہ پاس نہیں ہے
جیون مجھ کو راس نہیں ہے
ملن کی کوئی آس نہیں ہے
میرا روپ سنوار دے سائیاں
بس تو ہی درکار ہے سائیاں
درد ہزار دیے لوگوں نے
جوگ دیا جیون روگوں نے
صحرا نقش کئے سوگوں نے
جی لیا ہم مرن جوگوں نے
کر دے سفینہ پار وے سائیاں
بس تو ہی درکار ہے سائیاں
اتنے دکھوں میں کیسے جیئوں میں
چھید یہ من کے کیسے سئیوں میں
اشک یہ روح کے کیسے پئیوں میں
حکم ترا، کہ پھر بھی جیئوں میں
اجڑ گیا سنسار ہے سائیاں
بس تو ہی درکار ہے سائیاں
چھن گئی چنری سرکی سائیاں
لٹ گئی سوہنی تھر کی سائیاں
روئےکملی گھر کی سائیاں
میں باندی ترے در کی سائیاں
اک تو ہی تو غم خوار ہے سائیاں
بس تو ہی درکار ہے سائیاں
چنتوں کی برسات ہے مولا
خود سے ہوئی اب مات ہے مولا
اجڑی ٹوٹی ذات ہے مولا
بس تیرے کن کی بات ہے مولا
میرا روپ سنوار دے سائیاں
بس تو ہی درکار ہے سائیاں
ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
Leave a Reply