تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

آواز کے پر کھُلتے ہیں

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, May 9th, 2024

(قیصر مسعود)
کہا جاتا ہے کہ شاعری اور خاص طور پر غزل دل پر گزرنے والے احساسات و جذبات کے اظہار،محبوب کے حسن وجمال،ہجر و فراق اور خوشی اور غم کے اظہار کا نام ہے۔اس نظریے کے زیر اثر اب تک جتنی بھی شاعری ہو چکی ہے وہ اپنے دور کے تقاضوں کو بھر پور طور پر متاثر کرنے کے بعد آج محض یکسانیت کا شکار ہو کر رہ گئی ہے۔پچھلے پچاس ساٹھ سال کے پیرائیہ اظہار کی یہ شاعری منوں اور ٹنوں کے حساب سے ہو چکی ہے اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔کوئی نئی بات،نیا تجربہ یا نیا روّیہ خال خال ہی نظرآتا ہے۔بعض اوقات تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ساری شاعری کسی ایک ہی شاعر کی لکھی ہوئی ہے۔اکثر شعراء فکر اور فن کی ایک ہی عمومی سطح پر کھڑے نظرآتے ہیں۔سب ایک ہی انداز کی شاعری کرتے ہیں یا پھر محض لفظوں کی جگالی کے فرض کو نبھانے پر مامور ہیں۔آج کی تاریخ میں ایسی غزلیں بھی تخلیق ہو رہی ہیں جن کا ذائقہ اٹھارویں صدی میں کہی گئی غزلوں جیسا ہے۔
دراصل دیگر چیزوں کی طرح شاعری کا بھی زمان و مکاں اورروح عصر سے بہت گہرا تعلق ہے ۔ہر عہد اور ہر زمانے کی زبان،پیرائیہ ء اظہار اور فکری رجحانات اپنا الگ رنگ رکھتے ہیں۔اسی لیے زبان کے تجربات اور عہد جدیدکے مسائل کا ادراک جدید غزل کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ہر وہ چیز جو اپنے عہد میں جدید ہوتی ہے دوسرے عید میں پہنچ کر قدیم بلکہ بعض اوقات فرسودہ و جاتی ہے۔شاعری کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔اگر ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی اٹھارویں صدی کے شعری نظریات تک محدود ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم فکری سطح پر بانجھ ہو چکے ہیں۔
بقول ظفر اقبال اگرچہ غزل کی ہیئت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ باہر سے تبدیل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اسے اندر سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔لفظ آپ کے پاس ایک بنیاد ہے۔اسے الٹ پلٹ کردیکھنا چاہیے کہ اس کے اسرار و رموزکیاہیں،اس کے اور کیامعانی نکل سکتے ہیں یا یہ لفظ کہاں کھڑا ہے،اگر اسے ذراسا مختلف کر کے استعمال کیا جائے تو کیسا لگے گا۔بعض اوقات تو لفظ کا مختلف اور غیر معمولی استعمال ہی غزل کو درجہء کمال تک پہنچا دیتا ہے۔
سامعین کرام! میں نے ان چند سطور میں خاص طور پر غزل کے حوالے سے جو نقطہء نظر بیان کیا ہے اسکا مقصد یہ تھا کہ میں عزیز نبیل کی شاعری کو اسی کسوٹی پر پرکھتا رہتا ہوں۔اگر اس نقطہء نظر کے دفاع میں اپنے اشعار کو بطور حوالہ پیش کرنے سے قاصر ہو جاؤں تو عزیز نبیل کے مصرعے میرے دل و دماغ پردستکیں دیتے ہیں اور شاعری کے حوالے سے میرے نقطہء نظر کی حمایت میں دلیلیں دینے لگتے ہیں۔ “آواز کے پر کھلتے ہیں”عزیز نبیل کا تازہ شعری مجموعہ ہے۔ عزیز بنیل زبان،فکر اور اظہار کے حوالے سے ان معدودے چند شعراء میں شمارہوتا ہے جو شاعروں کے جم غفیر میں بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں۔وہ شعراء کے اس قبیلے کا مسافر ہے جو مروجہ راستوں پر چلنے کی بجائے اپنا راستہ خود بناتا ہے اور اس راستے پر کامیابی سے سفر کرتا ہے۔وہ شاعروں کے اس انبوہ سے مختلف ہے جو مصرعوں کو محض موزوں کرتے ہوئے اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ شاعری کر رہے ہیں، حالانکہ وہ شاعری ہے ہی نہیں۔ایسی شاعری کو نا شاعری کہنا زیادہ بہتر ہے جو پہلے ہی اتنی ہو چکی ہے کہ مذیدکی گنجائش باقی نہیں ہے۔جیسا کہ میں پہلے کہ چکاہوں کہ پیرائیہ اظہار کا پچاس ساٹھ سال پرانا سکہ آج نہیں چل سکتا۔
عزیز نبیل زبان کے تجربوں کے مشکل عمل سے بسہولت گزرتا ہے۔وہ نئی نئی تراکیب تراش کر ان کو نئے نئےمفاہیم سے روشناس کراتا ہے۔اس کی غزل کا استعاراتی نظام بڑا مضبوط اورمختلف ہے۔وہ منفرد زمینوں کا شاعر ہے۔بعض اوقات سنگلاخ زمینوں اور نامانوس قوافی کو بھی ایسی عمدگی اور مہارت سے استعمال میں لاتا ہے کہ میں ششدر رہ جاتا ہوں۔مضامین اور موضوعات کو استعاراتی رنگ میں اس خوب صورتی سے نظم کرتا ہے کہ شعر ہر بار نیا لطف دیتا ہے اور نئے مفاہیم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
عزیز نبیل کی فکر کو تفہیم کی سطح پر پرکھنے کے لیے اعلی ذوق درکار ہے۔محض عمومی یا سطحی قسم کی شاعری اس کا مسئلہ نہیں۔وہ دراصل عرفان صدیقی کی روایت کا پاسدار ہے اور ہم عصر شعراء کی اولیّن صف میں کھڑا شاعری کے نئے جہانوں کا متلاشی ہے۔وہ بطور فنکار اسی زمیں کا باسی ہے لیکن اس کی عقابی نگاہیں ستاروں سے آگے کہیں خلاؤں میں گھورتی نظر آتی ہیں۔آکاش کی وسعتوں میں چھپی ہوئی حقیقیتوں کی کھوج ہی دراصل اس کی شاعری کی محبوبہ ہے۔
عزیز نبیل کے چند اشعار دیکھیے اور لطف اٹھائیے:۔
وہ ایک راز! جو مدت سے راز تھا ہی نہیں
اس ایک راز سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے

ایک تختی امن کے پیغام کی
ٹانگ دیجے اونچے میناروں کے بیچ

تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے
مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے

ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ
اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں

گزر رہا ہوں کسی خواب کے علاقے سے
زمیں سمیٹے ہوئے آسماں اٹھائے ہوئے

نہ جانے کیسی محرومی پس رفتار چلتی ہے
ہمیشہ میرے آگے آگے اک دیوار چلتی ہے
روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے میں نبیلؔ
روز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں

)یہ مضمون عزیز نبیل کی کتاب “آواز کے پر کھلتے ہیں” کی تقریب رونمائی میں پڑھا گیا)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International