بقول راسخ عظیم آبادی ؔ ؛
؎ شاگرد ہیں ہم میرؔ سے استاد کے راسخؔ
استادوں کا استاد ہے استاد ہمارا
علم مومن کے سر کا تاج اور روح کی غذا ہے۔ حصولِ علم کا سہل اور خوبصورت انداز استاد ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علم ہی انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے تاریخ میں اساتذہ کا مقام سب سے بلند گردانا جاتا ہے۔ لفظ “استاد” فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی “معلم، سکھانے والا، راہ نما” وغیرہ کے ہیں۔ استاد وہ چراغ ہے جو معاشرے سے جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ کرتا ہے۔ استاد ہی قوموں کے معمار ہوتے ہیں۔استاد نہ صرف کتابی شکل میں سبق پڑھاتے ہیں بلکہ قوموں کی روحانی، جسمانی ذہنی لحاظ سے تربیت بھی کرتے ہیں۔ بقول نامعلوم شاعر ؔ ؛
؎ دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر
ایک مہذب معاشرے میں استاد کو جو عزت و توقیر دی جاتی ہے وہ کسی اور کو نہیں دی جاتی۔ کتابوں سے انسان علم تو حاصل کر سکتا ہے مگر استاد کی موزوں شخصیت ہی فرد کے کردار کو پختگی عطا کرتی ہے۔ استاد کی عظمت کا اس سے بڑھ کر کیا اعتراف ہو گا کہ چودہ سو سال قبل پیغمبر اسلام جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے معلم ہونے پر فخر کیا ہے۔ اسلام میں ایک لفظ پڑھانے والے کو بھی استاد کہا گیا ہے۔ والدین کے بعد استاد کی عزت و احترام کرنا ہم پر فرض ہے۔ والدین بچوں کی جسمانی پرورش کرتے ہیں جبکہ استاد بچوں کی روحانی، اخلاقی تربیت کرتا ہے۔ استاد ہونا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ استاد دنیا کی رنگینیوں، موسم کی شدت اور اپنے مسائل کو نظر انداز کرکے اپنے بچوں کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ استاد معاشرے کا وہ پھول ہے جو معاشرے کے پورے آنگن میں اپنی خوشبو پھیلا دیتا ہے۔
Leave a Reply