rkinews
کسی انسان کو اس کے گھر سے بے دخل کر دینا، اسے اس کے گھر سے باہر نکال کے اس کی آنکھوں کے سامنے ہی اس کے گھر پہ ناجائز قبضہ کر لینا ایک انسان کو اس کے اثاثوں سے محروم کر دینا صرف اور صرف طاقت کے زور پہ کسی نہتے، مظلوم، کمزور اور بے یارو مددگار کو خواہ مخواہ اذیتوں کے سمندر میں دھکا دے کر اس کی محرومیوں، اس کی بے بسی، اس کی آہ و فغاں پہ ٹھٹھے لگانا، قہقہوں کے جال بننا، کتنا مکروہ کام ہے، کتنا گھناونا فعل ہے، مجھے تو اپنے بچپن میں جب میں چھوٹی سی بچی تھی تب بھی یہ بے بسی پہ قہقہے لگاناصرف گناہ ہی نہیں گناہ عظیم ہی لگتا تھا اور اب تو عمر اور شعور کے ساتھ ساتھ تجربے کی آنچ نے بھی میری بالغ نظری میں کءی گنا زیادہ اضافہ کر دیا ہے. اب تو نا انصافی اور حد سے بڑھی ہوی ظلم و بربریت اور دنیا میں چند مخصوص دھڑوں کی اجارہ داری دیکھ کر دل تو رنج و غم میں مبتلا ہوتا ہی ہے، روح بھی بڑی بے تاب ہو جاتی ہے. دنیا پہ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا جم غفیر، تاحد نگاہ لوگ ہی لوگ مگر ملال اس بات کا کہ اتنے انبیاء، اتنے اولیاء، اتنے رسلا، اتنے درویشوں، اتنے سادھوؤں اور اتنے اللہ لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی بھی ہم جاہلوں کے کام نہ آ پای اور ہم قتل و غارت، جیسے قبیح فعل کے بھی مرتکب ہوے اور ایک بار نہ بار بار ہوے اور بھول گیے کہ وہ جو فرش و عرش کا دربار سجاے بیٹھا ہے وہ جسے اپنے بناے ہوے انسان سے ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار ہے وہ بھلا کیسے انسان کو اتنی تکلیف، اتنے کرب و بلا کی کیفیت میں مبتلا ہونے دیتا، ہاں انسان کا دل انسان کے لیے پتھر کا ہو گیا اور اتنا زیادہ پتھر کا ہو گیا کہ اس نے اللہ پاک کی زمین پر قبضے کے لیے انسانوں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگنا شروع کر دیا اور اللہ پاک کا فرمان کہ جس نے ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا.
قتل ناحق
قتل ناحق تو گواہی دے گا
بستیاں لوگوں سے چھیننے والو
لوگوں کی جاں سے کھیلنے والو
قتل ناحق تو جوش کھاے گا
اور اپنا آپ بھی دکھائے گا
ازلی جنگ صدیوں سے ہی جاری ہے.
دنیا میں خوف جنگ طاری ہے
ارے انساں تو کیوں شیطان بنا
یہ تو مالک کی ہے نافرمانی
یہ تو مولا سے ہی غداری ہے
شرک کو گناہ کبیرہ گردانتے ہوے انسانوں کو امن سکون سے رہنے کا درس دینے والا اس زمینی کشت و خون پہ کتنا پر ملال ہو گا.
جب دین ابراہیمی کی نسل کشی باقاعدہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کی جا رہی ہے شاید اپنے آپ کو افضل ترین قوم سمجھنے والوں سے اللہ پاک شدید ہی ناراض ہو گیا کہ ان کی پیشانیاں داغ ندامت اور ہاتھ مظلوموں کے لہو سے رنگے جانے لگے، تو اس بھول میں گوڈوں تک دھنسی ہوی یزیدیت شاید یہ بھول ہی بیٹھی کہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
لوگوں کی سیاست بام عروج تھی اور وہ انتہائی ڈھٹائی سے گھر والوں کو ان ہی کے گھروندوں سے نکال کر ان ہی کے سامنے ان کے پیاروں کو ان کے گھروندوں کو ملیا میٹ کرتے جا رہے تھے اور انھیں نہ احساس گناہ تھا نہ ان کا ضمیرانھیں کچوکے لگاتا تھا اور نہ ہی انھیں اپنے اس ظلم پہ کوئی پشیمانی تھی اللہ پاک نے ان کے کانوں کوبہرہ کر چھوڑا تھا، وہ آنکھوں سے اندھے ہو چکے تھے ان کی قوت گویائی بھی سلب ہو چکی تھی، تھا نہ قہر خداوندی کا مکمّل نظارہ اور ظالم اتنے گھمنڈ میں تھے کہ اپنے آپ کو اللہ پاک کی پسندیدہ ترین قوم بتاتے تھے، اتراتے تھے، اور اپنے آپ کو ہی اللہ پاک کی تمام نعمتوں کا حقدار ٹھہراتے ہوے لوگوں سے طاقت کے بل بوتے پہ ہر شے ہی چھینے چلے جاتے تھے. ارے اگر ہماری آپ کی کوی معمولی سی شے بھی کھو جاے ناں تو ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کے باولے ہو جاتے ہیں جب تک کہ ہمیں ہماری گمشدہ شے مل نہ جاے اور اہل فلسطین سے تو ان کا گھر چھینا جا چکا ہے ان کی نہتے مظلوم اور خود دار شہریوں کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت صفحہ ہستی سے مٹا یا جا رہا ہے بلکہ مٹایا جا چکا ہے کہاں ہے دنیاوی نام نہاد امن اور صلح کی داعی تنظیمیں کیا وہ صرف پرندوں اور جانوروں کے حقوق کی جنگ ہی لڑ سکتے ہیں؟؟؟ کیا انھیں فلسطین کے معصوم اور بے بس تہی داماں شہری بالکل نظر نہیں آتے؟؟؟ یاپھر ان کی انسانیت بھی صرف اپنی فلاح کے لیے سانسیں لیتی ہے، کیا دنیا میں جنگل کا قانون ہی چلتا رہنا ہے یا پھر انصاف کا بول بھی بالا ہو گا، ہر پیغمبر اور ہر مذہب پرچار تو امن و آشتی کا ہی کرتے رہے ہیں حقوق اللہ سے زیادہ حقوق العباد پہ زیادہ زور دیا جاتا رہا ہے اور جب ایک زانی کو سنگسار کرنے کے لیے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سامنے لایا جاتا ہے تو عیسی علیہ السلام کیا ہی خوبصورت حل پیش کرتے ہیں کہ اس زانی پہ پہلا سنگ وہ برسائے جس نے یہ گناہ نہ کیا ہو.
سزا
کیا خوب کہا تھا
عیسٰی نے
زانی کو سزا تو لازم ہے
پر
پہلا سنگ وہ برسائے
جو
پاک ہو
مریم کے جیسا
تو غور فرمائیے کہ فلسطینی بچوں سے تمام سہولیات چھین کروہ بد بخت اپنے بچوں کو تمام سہولیات بہم پہنچانے کے لیے ہر طرح کے گناہوں کی دلدل میں دھنسے چلے جاتے ہیں اس خام خیالی کے ساتھ کہ وہ ہی فاتح عالم ہیں ارے یزید بھی اسی خام خیالی کے ساتھ اہل بیت کے پاک خون سے اپنے ہاتھ رنگتا چلا گیا تھا اور آج تک جتنی لعن طعن اس جیتے ہوے بادشاہ کے حصے میں آی ہے اسرائیل اس سے کءی گنا زیادہ لعن طعن کے لیے تیار رہے.
وہ جنگ ہار چکے ہیں
سبھی کچھ وار چکے ہیں
فاتح مگر وہی ہیں
جنہیں مفتوح سمجھتے ہو
تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کے لیے سنجیدگی سے اپنی افواج اہل فلسطین کی حفاظت پہ معمور کرنے کا اس سے اچھا موقع تاریخ پھر نہیں دینے والی اور ہم اہل قلم تو صرف قلم ہی سے اہل فلسطین کا ساتھ دیتے آے ہیں اور دیتے رہیں گے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com
Leave a Reply