Today ePaper
Rahbar e Kisan International

افسانہ عنوان. مطلبی

Articles , Snippets , / Sunday, June 22nd, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
میں یہ نہیں کہتی کہ لوگ بڑے اچھے ہوتے ہیں، ہمیشہ دکھ سکھ میں کام آتے ہیں ایکدوسرے کی مشکلات میں ایک دوسرے کاہاتھ بٹاتے ہیں. نہیں ہاتھ بٹاتے لوگ ایک دوسرے کا، نہیں مدد کرتے ایک دوسرے کی، بلکہ ایک دوسرے کو مصایب کے دریا میں، ارے ارے دریا نہیں سمندر میں دھکا دے کر خوش ہوتے ہیں، تالیاں بجاتے ہیں اور موج تماشا کرتے ہیں،
کبھی ایسا ہوا نہیں کہ آپ رو رہے ہوں اور لوگ آپ کے آنسو پونچھیں، آپ کو تسلی دیں، آپ کی ڈھارس بندھایں، آپ کو حوصلہ دیں اور آپ کے غم کو غلط کرنے میں کوئی معمولی سا کردار بھی ادا کر دیں،مطلب پرستی کی وبا نے پورے معاشرے کو اس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ اس خود غرضی اور مفاد پرستی کی وبا نے رشتوں میں دراڑیں ڈال رکھی ہیں کہ اولاد، والدین سے دور اور ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے بہن بھائی بھی اس خود غرض وبا کا شکار یوں ہوے کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے سے بھی گیے.
شادیاں، بربادیاں بھی مطلب کی ہویں اور دکھاوا بن گییں, شادی کے لہنگے، جوتے، جیولری سب کچھ برانڈڈ، دولہن کا جہیز برانڈڈ، دولہن کو دی جانے والی گاڑی برانڈڈ.
اور پھر برانڈڈ دولہن کے نخرے بھی برانڈڈ، اور پھر ان برانڈڈ شادیوں کا انجام برانڈڈ طلاق پہ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی ہو جاتا ہے قصہ ختم. انسان اتنا کھوکھلا، تنہا اور روگی ہو گیا کہ رشتوں کی چاشنی کو خود غرضی کی وبا نے جھٹ میں ہی نگل لیا، رشتے صرف نام کے رہ گیے، دنیا گلوبل ویلیج کیا بنی کہ مغربی براییاں لپک کر مشرقی سماج پہ حاوی ہو گییں، مشترکہ خاندانی نظام کے شیرازے، روی کے گالوں کی مانند بکھر گیے، اولاد نے والدین سے جائیدادیں چھین کے دنیا کے رحم و کرم پہ بے یارو مددگار چھوڑ دیا اور ضعیف والدین، اپنی اولاد کی موجودگی میں لاوارثوں کی طرح مارے گیے کہ آخری وقت میں نہ کوئی ان کا پرسان حال تھا نہ کوئی
نہ کوی والی وارث.
آخری سانس
آخری سانس تو نے کیسے لی
میری آنکھوں کے نین تارے بتا
کیسے بیتی تیری حیات یہ سن
کیسی اشکوں کی تھی برسات بتا
تو وہ میرے بدن سے کسی جونک کی مانند جب جب ان کا جی چاہا میرا خون چوستے رہے، اور جب میرے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی نہ رہا اور میں استخوانی ڈھانچے میں ڈھل گءی تو انھوں نے مجھے بڑی بے دردی سے اٹھا کر گدھوں کے سامنے بڑی بیدردی سے پھینک دیا اور میرے ساتھ اس طرح کا ظالمانہ سلوک کرنے والے کوی اور نہیں میرے اپنے بچے تھے. جنہیں جنم بھی میں نے دیا، لوریاں بھی میں نے سنایں، تعلیم س تربیت بھی میں نے کی مگر وہ بڑے ہونے پہ میرے اس شک کو پک بناتے ہوے خراماں خراماں اپنی زندگیوں میں مست ہو گیے اور مجھے میرے خوف کی دلدل میں اس طرح اتار گیے کہ اب اس دلدل نے مجھے چاروں طرف سے جکڑ رکھا ہے.
خوف
ابھی تو سیڑھی کے نچلے پاے پہ بیٹھ
مجھ کو پکارتے ہو.
ابھی تو راتوں کے رت جگے میں
مجھے صدا دے کے ہارتے ہو
اگر بلندی پہ پہنچ کے بھی مجھے پکارا
تو ہے محبت
وگرنہ ہیں ساری جھوٹی باتیں
نری بناوٹ
نری شرارت
لوگ، معمولی اور گھٹیا ترین کام نکلوانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں اور پھر مطلب پورا ہوتے ہی طوطے کی طرح سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں.
طوطا چشمی کی اس نے حد کردی
بھری محفل میں پھیر لیں آنکھیں
اس نفسانفسی کے عالم میں اس شخص کو دیکھنے کی حسرت ہی پال بیٹھے ہیں جو پورے قد کے ساتھ اور پورے رعب اور آواز کے ساتھ یہ کہہ پاے کہ وہ تو مطلبی نہیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International