تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
انسان عقل و شعور کی دانش سے عالم کاٸنات میں عظیم مرتبہ رکھتا ہے۔قرآن مجید ٬فرقان حمید مخزن علم ہے۔اس کا موضوع خاص ”انسان“ ہے۔ماہرین کے مطابق رب کاٸنات کے اعجاز قدرت سے انسان کو فکروشعور کی دولت عطاہونے سے فرش ارض پر ناٸب مقرر ہونے کا اعزاز نصیب ہوا اور انسان کو رب کریم نے یہ بات احسن انداز سے بتا دیا۔اس خاص راز کی حقیقت انسان پر علم کی رعناٸیوں اور دانش کی کثرت سے واضح ہو پاتی ہے۔اس کی روشنی اور اجالوں سے رویے اور اطوار بھی دلکشی کا روپ دھار لیتے ہیں۔یہ اعزاز فقط قرآن مجید کو حاصل ہے جس سے انسان پر راز کھلتے ہیں اور مقصد زندگی واضح ہوتا ہے۔انسان کو تمام حقاٸق اور رموز قرآن مجید کی روشن تعلیمات سے معلوم ہوتے ہیں اور انسان کے فہم و فراست میں ایک وسعت بھی پیدا ہوتی ہے۔تخلیق کاٸنات سے حقیقت انسان تک سب کچھ قرآن مجید سے ہی معلوم ہوتا ہے۔ایک بے مثال سلسلہ حیات و کاٸنات کے دریچوں کا ادراک ہوتا ہے۔زمین و آسمان کی تخلیق٬انسان کی پیداٸش٬بزم کاٸنات کی خوبصورتی٬اور ورطہ حیرت میں ڈالنے والے حقاٸق کی وضاحت ۔اقوام عالم کے واقعات اور ان کے پس منظر میں حقاٸق کی عقدہ کشاٸی بھی ہوتی ہے۔انسان کو حقیقی رہنماٸی کا عطیہ بھی ملتا ہے۔زندگی چونکہ اللہ کریم کی طرف سے نعمت ہے۔اس لیے فکری و اخلاقی بنیادوں میں استحکام کے لیے علم ودانش کی متاع عظیم سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ایمانیات میں پختگی٬عقاٸد میں درستگی٬معاملات میں بہتری کی رہنماٸی بھی تو قرآن مجید کی تعلیمات سے ممکن ہے۔علمی انحطاط کے اسباب پر غور کیا جاۓ تو ایک اندھیرا سا نظر آتا ہے ۔ایک شاعر نے کیا قیمتی بات کی عکاسی کی:-
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوۓ تارکِ قرآں ہو کر
نوجوان نسل جو عیش وعشرت کی بھول بھلیوں میں غرق اور اخلاقیات و سماجیات میں عصری تقاضوں سے کوسوں دور جدت پسندی کی تباہ کن حالت میں زندگی بسر کرنے کا عادی ہے۔اسے بیداری کی ضرورت ہے۔بقول شاعر:-
تہذیب نویں کارگہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھلادو
انقلاب ہمیشہ علم و دانش کی متاع عظیم سے رونما ہوتے ہیں۔تعلیمی زوال کا تبصرہ ہو تو عجب سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔بقول شاعر:-
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی٬نہ محبت٬نہ معرفت٬نہ نگاہ
کتابوں سے الفت باقی نہیں رہی اصل مقصد کاٸنات کے رازوں کو سمجھنا اور راہ نجات پر چلنا ہے۔علم ودانش کی دولت سے ہی تو متاع دین و دانش کی اہمیت کا راز کھلتا ہے۔علم و عرفان کے چراغ روشن ہونے سے سینے روشن ہوتے ہیں۔نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے؟ کی حقیقت بھی تو اس مخزن علم کی کتاب قرآن مید سے عیاں ہوتی ہے۔اس ضمن میں معلم انسانیت کا اسوہ حسنہ بھی تو ہمارے نوجوانوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔اس پر عمل کرنے سے زندگی کا سفر با معنی ہوتا ہے۔ماہرین علم و دانش کے مطابق عصر نو کے تقاضے بھی تو یہی ہیں ”وہ اصول اور قاعدے جن سے سوچ مضبوط ہوتی ہے اور تخلیقی قوتوں کو جلا ملتی ہے ۔اسی کی اہمیت تو اس قدر ہے اجتماعی استفادہ کیا جاتا ہے۔اور ماحول میں بہتری اور رویوں میں حسن پیدا ہوتا ہے“
علم کی روشنی اور دانش کے قیمتی جواہر سے حیات انسانی میں رونق پیدا ہوتی ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ ہمارے معاشرے اور سماج میں علم اور تعلیم کو محض ایک سماجی خوبی تصور کیا جاتا ہے ۔ماہرین کے مطابق علم کے چراغ روشن ہونے سے ہی سراغ زندگی ملتا ہے۔تعلیم سے جینے اور زندہ رہنے کی آس کی کونپل پھوٹتی ہے۔خیالات کی قوس قزح میں رنگینی پیدا ہوتی ہےاور خیابان زندگی گل و گلزار بنتی ہے۔بقول شاعر
”افکار تازہ سے جہان تازہ کی نمود“ممکن ہے۔اجتماعی سوچ اور فکر کے محور سے تازہ خیالات پیدا ہوتے اور زندگی کے سفر میں ایک امنگ پیدا ہوتی ہے۔اصلاح احوال سے کاروان حیات میں رونق دستک دیتی ہے۔
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
گاٶں ڈِنگ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔03123377085
Leave a Reply