rki.news
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
پاکستان میں توانائی بحران، ماحولیاتی آلودگی اور درآمدی ایندھن پر انحصار جیسے مسائل کئی دہائیوں سے معاشی پالیسی سازوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ECC) کی جانب سے الیکٹریکل وہیکل (EV) پالیسی کی منظوری ایک اہم پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد نہ صرف ماحول دوست ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا ہے بلکہ نوجوانوں، خاص طور پر تعلیم یافتہ طبقے کو بااختیار بنانا اور پاکستان کو ای-موبیلیٹی کی طرف لے جانا بھی اس کا ہدف ہے۔
دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے الیکٹریکل گاڑیوں کی جانب پیش رفت کوئی نئی بات نہیں۔ چین، جرمنی، ناروے اور امریکہ جیسے ممالک نے ایک دہائی سے زائد عرصے سے اس میدان میں بھرپور سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کا آغاز 2020 میں تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں ہوا جب ایک ابتدائی EV پالیسی 2020-2025 کا اعلان کیا گیا۔ تاہم، اس پالیسی کا دائرہ کار محدود رہا اور بنیادی ڈھانچے کی کمی، درآمدی قیمتوں اور تکنیکی صلاحیت کی عدم دستیابی جیسے مسائل نے اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ECC کے اجلاس میں جو فیصلے کیے گئے ہیں، ان میں سب سے اہم اقدام پوزیشن ہولڈر طلبہ کو مفت ای-بائیکس کی فراہمی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف تعلیمی کارکردگی کو سراہنے کا ایک نیا زاویہ ہے بلکہ معاشی طور پر خودمختار نوجوان نسل کی تشکیل میں مددگار بھی ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ای-بائیکس اور رکشوں پر 9 ارب روپے کی سبسڈی سے نہ صرف عوام کو سستا اور ماحول دوست سفری ذریعہ ملے گا بلکہ مقامی سطح پر چھوٹی صنعتوں کو بھی فروغ ملے گا۔
مزید برآں، 2025-26 میں 1 لاکھ 16 ہزار ای بائیکس اور 3,170 ای رکشے فراہم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، جو کہ قابل تحسین ہے۔ اس میں ابتدائی طور پر 40 ہزار بائیکس اور 1 ہزار رکشے فراہم کیے جانے کا منصوبہ پاکستان میں ٹیکنالوجی اپنانے کے میدان میں ایک عملی قدم ہے۔
ایک اور اہم پہلو ترسیلات زر اسکیم کے تحت واجبات کی ادائیگی کے لیے 30 ارب روپے کی ضمنی گرانٹ کی منظوری ہے۔ ترسیلات زر پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور اس اسکیم کے تحت واجبات 58.26 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ ECC کا یہ فیصلہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کو بحال رکھنے میں مددگار ہوگا۔
اسی اجلاس میں قائداعظم یونیورسٹی کے لیے دو ارب روپے کی بیل آؤٹ گرانٹ کی منظوری اور ساتھ ہی مالی خود کفالت کا منصوبہ طلب کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت اعلیٰ تعلیم کو بھی معاشی استحکام کے دائرہ کار میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ای سی سی کے یہ اقدامات ایک جامع اور کثیرالجہتی معاشی پالیسی کے عکاس ہیں جس میں ماحولیاتی تحفظ (ای بائیکس و رکشے)، تعلیم و نوجوانوں کا فروغ (پوزیشن ہولڈرز کی حوصلہ افزائی)، بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ اعتماد سازی (ترسیلات زر واجبات کی ادائیگی)، اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی بحالی (قائداعظم یونیورسٹی کی گرانٹ) شامل ہیں۔ تاہم ان فیصلوں کا اثر اسی وقت مثبت ہوگا جب ان پر شفاف اور بروقت عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ حکومتی مشینری کو چاہیے کہ وہ بیوروکریٹک رکاوٹوں، فنڈز کی بدانتظامی اور ٹیکنیکل چیلنجز پر قابو پانے کے لیے موثر نگرانی اور عملی منصوبہ بندی کرے۔
پاکستان اگر اس پالیسی کو کامیابی سے نافذ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ نہ صرف ملکی معیشت کو نئی سمت دے گا بلکہ نوجوانوں اور ماحولیاتی تحفظ کے میدان میں بھی ایک نمایاں سنگ میل ثابت ہوگا۔ ای سی سی کے یہ فیصلے اگر صرف اعلانات کی حد تک محدود نہ رہے تو یہ بلاشبہ پاکستان کے ترقیاتی سفر میں ایک اہم موڑ بن سکتے ہیں۔
Leave a Reply