rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
وہ معاشرہ اور سماج کتنا مظلوم ہوتا ہے جہاں انسانی رویوں میں عدم توازن پایا جاتا ہو۔امیر اور غریب کا امتیاز پایا جاتا ہوں۔انسان اپنی شناخت اور پہچان کی بجاۓ دوسروں کے سہاروں کی تلاش میں ہو۔انسان کا وقار بری طرح متاثر ہوتا ہے۔انسان کی زندگی کی بقاء اور خوبصورتی کا انحصار تو اپنے کردار اور اصولوں پر مبنی ہو نا چاہیے۔زندگی تو قدرت کی سب سے بڑی عطا ہے۔اس میں دلکشی اور خوبصورتی اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب خود داری نمایاں ہو۔ایک باوقار انسان تو سماج اور معاشرہ میں عزت کے ساتھ زندہ رہنا سب سے بڑی متاع خیال کرتا ہے۔یہی اصول ہوتے ہیں جن سے انسانیت کے احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔جدید زندگی کے خواب کی تعبیر بھی تو سنہری اصولوں سے ممکن ہوتی ہے۔عصر نو کے حالات و واقعات بالخصوص سوشل میڈیا پر جو کچھ منظر نامہ دیکھنے کو ملتا ہے تو عجب سوچ اور خیال کی عکاسی ہوتی ہے۔زندہ اقوام تو اپنی روایات اور اقدار کی نہ صرف احترام کرتی ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام بھی کرتی ہیں جس سے ایک حسن خیال اور زاویہ کمال کی عکاسی ہوتی ہے۔یہ بات تو مسلمہ ہے کہ عزت نفس کی حفاظت سے ہی انسانیت کا وقار بلند ہوتا ہے اور فکری سوچ کے معیار کے بلند ہونے سے قوت اظہار میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔تعلیم کے فواٸد تو بے شمار ہیں۔یہ انسان کو انسان بناتی ہے اور وقار انسانیت کو بلند کرتی ہے۔با مقصد تعلیم تو وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔جس عہد میں انسانیت کا وقار مٹ جاۓ وہ زوال کی سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔اس لیے تعلیم کی روشنی سے نہ صرف سوچ میں بہتری پیدا ہوتی ہے بلکہ زندگی کے مقاصد بھی واضح ہوتے ہیں اور سوچ و فکر کا معیار بھی بلند ہوتا ہے۔انسانیت کی دہلیز پر نغمہ محبت کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔نسلی اور خاندانی تعصبات کے زہر سے جو سماج میں حالات پیدا ہوتے ہیں ان سے قدرومنزلت کے اصولوں پر زد پڑتی ہے۔دریچہ دل میں خوشبو کی مہک سے ہی الفت کے پھول کھلتے ہیں اور اخوت کے انداز نکھرتے ہیں۔ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہنا تو خوبصورت عمل ہے ۔دلوں میں جب فاصلے بڑھ جائیں تو انسانیت کی قدروقیمت اور احساس کے دریچوں پر زد پڑتی ہے۔وقت کی پکار تو یہی ہے کہ عہدوں پر براجمان لوگ فریاد رس تو بنیں۔زندگی تو ایک سفر ہے۔اس میں خدمت کا عنصر غالب رہے تو عزت نفس بھی محفوظ رہتی ہے اور انسانیت کا وقار بھی بحال رہتا ہے۔انسان کی زندگی مثل شجر سایہ دار ہو تو امن کی فضا پروان چڑھتی ہے۔شفیق،نرم مزاج اور حوصلہ مند لوگ سماج کی تعمیر اور تکریم انسانیت کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔اچھے اور نرم مزاج انسان تو سماج کے لیے سائبان ہوتے ہیں۔ان کی مثال تو ایسی ہوتی ہے بقول شاعر:.”ہزار چشمہ تیرے سنگ راہ سے پھوٹے “کے مصداق محبت کے جہان آباد ہوتے ہیں۔ہر انسان کو تو محسوس ہو کہ محبت غالب ہوتی ہے اور نفرت بے نام ہوتی ہے۔ایسی صورت ہو کہ دلوں میں فاصلے نہ ہوں بلکہ قربت ہو اور اللہ کی رضا شامل ہو۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو سماج اور معاشرہ نسل اور خاندان کے امتیاز کا شکار ہوتا ہے اس کا باقی رہنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جاتا ہے۔ احتیاط کا دامن تھامنے سے ہی دل کے دریچوں میں محبت کے پھول مسکراتے ہیں۔یہ بات طے ہے کہ پلکوں کی ہلکی سی جنبش سے زندگی کے چمن میں ایک کانٹے کی طرح چبھن سی محسوس ہوتی ہے۔زندگی کا اصل رواج تو دوسروں کی خوشی اور راحت کا سامان کرنا ہوتا ہے۔خود غرضی سے تو نفرت کے انگارے پیدا ہوتے ہیں۔جو لوگ سماج میں ابر باراں کی طرح زندہ رہتے ہیں وہ تو امن کے سفیر اور انسانیت کے قدر دان ہوتے ہیں۔اس لیے وقت کا تقاضا یہی ہے کہ خوبصورت پھول کی طرح زندہ رہنے کا انداز اختیار کیا جاۓ۔دل و نگاہ سے خیر خواہی کی روش اختیار کی جاۓ۔پر سکون زندگی تو جنت کی مثال ہوتی ہے۔اس لیے جو کوئی بھی جس عہدہ پر فائز ہو وہ خدمت انسانیت کا دامن تھام کر رہے۔رویوں سے ایسا محسوس ہو کہ ہوائیں دریچہ دل کو سجانے کے لیے الفت کا پیام لے کر آ رہی ہیں۔
Leave a Reply