rki.news
تنقیدی جائزہ : انو رادھا ورما
انسانی زندگی ہمیشہ سے ہی سوالات کے حصار میں جکڑی رہی ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ “اچھی زندگی” کسے کہا جائے؟ کیا اچھی زندگی کا مطلب دولت ہے، یا اولاد کا ہونا، یا ایک خوبصورت شریکِ حیات کا ساتھ، یا پھر گھر کی چار دیواری میں سکون؟ انور ظہیر رہبر کا افسانہ “دریا کا کھارا پانی” اسی بنیادی سوال کو مرکز بناتا ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ اگر زندگی وفادار ہی نہیں تو یہ اچھی کیسے ہو سکتی ہے۔ افسانے کی ابتدا سے ہی یہ فلسفیانہ سوال کہانی کے تانے بانے میں گندھا ہوا ہے اور انجام تک پہنچتے پہنچتے یہ پورے سماج کے چہرے سے نقاب نوچ ڈالتا ہے۔
افسانے کا مرکزی کردار مبارک بیگم ہے، جو اپنی تین بیٹیوں کے مستقبل کی فکر میں یورپ میں پناہ کی درخواست دینے پر مجبور ہے۔ اس کردار کے ذریعے افسانہ انسانی مجبوری، معاشرتی ناانصافی اور خواتین کی مشکلات کو بے باکی سے پیش کرتا ہے۔ مبارک کی زندگی کے حالات، جیسے یتیم بچپن، تایا اور تائی کے ظلم و ستم، اور پھر شادی کے بعد کے معاشرتی مسائل، اس بات کی علامت ہیں کہ سماج میں کمزور طبقے کے لیے کوئی تحفظ یا سہارا موجود نہیں۔ افسانے میں یہ واضح ہے کہ سماجی اور ریاستی ادارے ان افراد کی زندگیوں کی بہتری کے لیے مؤثر کردار ادا نہیں کرتے۔ یہ نقطہ نہ صرف پاکستان یا کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے کہ یتیم یا کمزور افراد کے حقوق اور سہولتیں اکثر نظر انداز کے جاتے ہیں۔
قیوم اور مبارک کے درمیان پیدا ہونے والے تصادم کے پس منظر میں، انور ظہیر رہبر نے انسانی فطرت اور سماجی دباؤ کی نفسیات کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے۔ قیوم کی خواہش کہ اسے بیٹے کی پیدائش کے ذریعے وارث ملے، اور مبارک کی مجبوری کہ وہ صرف اپنی بیٹیوں کی بھلائی چاہتی ہے، ایک طرح سے قدیم معاشرتی توقعات اور جدید انسانی جذبات کے درمیان ٹکراؤ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں افسانہ انسانی تعلقات میں طاقت، اختیار، اور مجبوری کے پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے اور قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کس طرح سماجی دھانچے اور روایتی توقعات فرد کی زندگی پر بوجھ ڈالتی ہیں۔
افسانے کی سب سے اہم خصوصیت اس کا علامتی پہلو ہے۔ “دریا کا کھارا پانی” محض جغرافیائی یا فطری حقیقت نہیں بلکہ انسانی زندگی کی مشکلات، معاشرتی بے حسی اور امید و ناامیدی کی علامت ہے۔ جہلم کا پانی اور اوڈر کا پانی، دونوں دریاؤں کے ذکر سے یہ افسانہ ایک عالمی مسئلے کی نمائندگی کرتا ہے کہ انسانی مشکلات، بے یار و مددگار زندگی، اور مجبوری کا تجربہ صرف ایک ملک یا معاشرے تک محدود نہیں۔ اس علامتی بیانیہ کے ذریعے قاری کو یہ سمجھ آتا ہے کہ انسانی زندگی میں مشکلات، ناانصافی اور رشتوں کی نازکیت عالمی سطح پر موجود ہیں۔
افسانے میں پیش کیے گئے مکالمات اور اقتباسات بھی تنقیدی مطالعے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جب مبارک التجا کرتی نظر آتی ہے کہ:
“میری تین بیٹیوں کے لیے، بس ان معصوم تین بیٹیوں کے لیے۔ انہیں ایک اچھی زندگی دے دیں تاکہ یہ بڑی ہو کر میری طرح کسی کے گھر سے یوں در بدر نہ ہوں اور مشکل وقت میں کسی کی محتاج نہ ہوں جیسی آج میں ہوں محتاج۔”
یہ جملہ صرف ایک ماں کی خواہش کو بیان نہیں کرتا بلکہ اس کے پس منظر میں ایک پوری سماجی حقیقت چھپی ہے کہ معاشرہ اور ریاست اس ماں اور اس کی بیٹیوں کے تحفظ میں ناکام ہیں۔ افسانے کے بیانیے میں یہ نقطہ انسانی حقوق اور سماجی ذمہ داری کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔
تنقیدی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو افسانہ پلاٹ کی روایت سے زیادہ فکری اور سماجی جہتوں پر زور دیتا ہے۔ افسانے کا مرکزی مقصد صرف ایک داستانی ترتیب پیش کرنا نہیں بلکہ قاری کو سماجی حقیقتوں اور انسانی مجبوریوں کی جھلک دکھانا ہے۔ اس میں کردار تفصیل سے بیان نہیں کیے گئے بلکہ ان کے اعمال، ردعمل، اور سماجی دباؤ کے تحت ان کی حالت کو نمایاں کر کے انسانی تجربے کی گہرائی دکھائی گئی ہے۔ اس لحاظ سے، یہ افسانہ کلاسیکی کردار نگاری سے زیادہ علامتی اور فکری تنقید پر مبنی ہے۔
اس کے علاوہ، افسانے کا اسلوب اور زبان بھی قابلِ توجہ ہے۔ انور ظہیر رہبر نے سادہ مگر بلیغ نثر کا استعمال کیا ہے جو قاری کو کہانی کے ساتھ جذباتی طور پر جوڑتی ہے۔ وہ پیچیدہ تراکیب یا ادبی مہارت کی نمائش کے بجائے سادہ، مؤثر اور ادبی انداز میں انسانی مسائل اور سماجی حقیقتوں کو بیان کرتے ہیں۔ جیسے کہ افسانے میں ایک منظر کے حوالے سے لکھا گیا ہے:
“آج یہاں اب وہ سوالی بنے قیوم کی چوکھٹ سے نکل کر ایک اجنبی دیس کی اجنبی چوکھٹ پر کھڑی اپنی نہیں بلکہ اپنے بچیوں کی اچھی زندگی کی بھیک مانگ رہی تھی۔”
یہ جملہ نہ صرف کردار کی مجبوری کو اجاگر کرتا ہے بلکہ انسانی رشتوں، سماجی رویوں اور عالمی سطح پر انسانی بے بسی کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
افسانے کے سماجی اور تہذیبی پہلو بھی انتہائی اہم ہیں۔ یہ صرف ایک خاندان یا ایک عورت کی کہانی نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کے رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ معاشرے میں یتیم بچوں، عورتوں، اور کمزور افراد کے حقوق کے فقدان کو افسانہ بہت خوبصورتی سے پیش کرتا ہے۔ سماج اور ریاست کی بے حسی، رشتوں کی کمزوریاں اور انسانی خودغرضی اس افسانے کی بنیاد ہیں، اور یہ موضوع عالمی سطح پر بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ افسانہ قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسان کس حد تک اپنی ذاتی خواہشات اور سماجی دباؤ کے تحت دوسروں کی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
افسانے میں امید اور ناامیدی کا توازن بھی دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ مبارک کی یورپ میں پناہ کی درخواست، اس کی اپنی زندگی سے زیادہ بیٹیوں کے مستقبل کے لیے، ایک طرح سے انسانی امید اور جدوجہد کی علامت ہے۔ دوسری جانب، قیوم کی خودغرضی، خالہ زیبو کی چالیں اور سماجی رویے انسانی فطرت کی کمزوری اور معاشرتی بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس توازن کے ذریعے قاری کو زندگی کے تضاد، انسانی فطرت کی پیچیدگی اور سماجی نظام کی خامیوں کا ادراک ہوتا ہے۔
علامتی طور پر دیکھا جائے تو افسانے کا عنوان “دریا کا کھارا پانی” ایک مکمل تصویر ہے۔ یہ نہ صرف جہلم اور اوڈر کے دریاؤں کا حوالہ دیتا ہے بلکہ انسانی زندگی کی تلخی، مجبوری، اور امید کی نمائش کرتا ہے۔ پانی کی کھاراپن ایک طرح سے زندگی میں مشکلات، ناانصافی، اور انسانی رشتوں میں موجود تلخی کی علامت ہے۔ افسانہ اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ انسانی زندگی میں مشکلات، رشتوں کی نزاکت اور سماجی رویوں کا اثر ایک مسلسل بہتے دریا کی طرح ہے، جس کا اختتام شاید کبھی واضح نہ ہو۔
تنقیدی نقطۂ نظر سے یہ افسانہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ معاشرے میں انسانی حقوق، انصاف اور ذمہ داری کے فقدان کی وجہ سے کمزور طبقہ اپنی زندگی میں مسلسل دشواری کا سامنا کرتا ہے۔ افسانے کے کردار، اگرچہ ذاتی اور محدود دکھائے گئے ہیں، لیکن ان کے حالات کے ذریعے معاشرتی حقائق اور عالمی مسئلے واضح ہوتے ہیں۔ یہ افسانہ انسانی رشتوں میں طاقت، اختیار اور خودغرضی کے اثرات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ انور ظہیر رہبر کا افسانہ “دریا کا کھارا پانی” انسانی مجبوری، سماجی ناانصافی اور معاشرتی بے حسی کی گہری تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ افسانہ قاری کو یہ باور کراتا ہے کہ حقیقی اچھی زندگی صرف ذاتی خواہش یا سہولت سے نہیں ملتی، بلکہ انصاف، ہمدردی اور انسانی حقوق کے تحفظ کے بغیر کسی بھی کامیابی کی قدر نہیں۔ مبارک کی جدوجہد اور اس کی بیٹیوں کے مستقبل کی فکر ایک علامتی سبق دیتی ہے کہ مشکلات کے باوجود انسان کی لگن اور شعور ہی زندگی کو بامعنی اور قابلِ قدر بنا سکتے ہیں۔
Leave a Reply