rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
غریب کی زندگی آزمائشوں اور مصائب کی تصویر ہوتی ہے۔اس کی زندگی کا بوجھ کوئی سہارنے کو تیار نہیں ۔سماج کا مزاج بھی تو کچھ ایسا ہے کہ احساس مفقود ہے۔کیا کبھی معاشرے میں یہ احساس پیدا ہوا کہ غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے لوگوں کی زندگی کیسے گزرتی ہے۔اس ضمن میں معروف شاعر محترم نواب ناظم لاہور کی نظم اس لیے پیش خدمت ہے کہ ”ہزار خواب ہیں یہاں“کے تناظر میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔
مفلسی اور مہنگائی
۔۔۔۔۔۔۔ نواب ناظم ۔۔۔۔۔۔۔
رونق بازار سے اب کیا گریزاں ہیں عوام
اس گرانی کے چھلاوے سے پریشاں ہیں عوام
سینکڑوں چہرے بدلتا ہے یہ آکر شہر میں
کیا قیامت ہے کہ ہر لحظہ ہراساں ہیں عوام
اس عوامی دور میں بھی بھوکے ننگے ہیں عوام
کون جانے کون سمجھے کیوں تڑپتے ہیں عوام
میرے ہمسائے کا بچہ مر گیا ہے بھوک سے
کاش کوئی مجھ سے پوچھے زندہ کیسے ہیں عوام
کتنے بیماروں نے دم توڑا محل کے آس پاس
کتنی دوشیزاؤں کے تن پر ہے بوسیدہ لباس
کتنی زچائیں جہان زندگی سے چل بسیں
ڈس رہا ہے کتنے مزدوروں کو بونس کا قیاس
ہو گیا کاروں کے نیچے کتنے بیکاروں کا خون
پی لیا ہے مے کشوں نے کتنے ناداروں کا خون
کتنے بچے مفلسی میں ہیں جہالت کا شکار
کر دیا مہنگائی نے کتنے جگر پاروں کا خون
پس رہے ہیں آج مہنگائی کی چکی میں غیور
بک رہا ہے رات کے پردے میں دوشیزہ کا نور
مفلسوں پر مینہ گرانی کا برستا ہے ابھی
اگ رہا ہے ذہن کے کھیتوں سے ڈاکے کا فتور
ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں مسئلے ہی مسئلے
میں بھی بھوکا تو بھی بھوکا کون کس کا ساتھ دے
مضمحل ہونے لگے ناظم قواۓ علم و فن
ٹوٹنے کو روح کا رشتہ ہے میرے جسم سے (نواب ناظم)
گہری نظر سے دیکھا جاۓ تو غریب کی زندگی تو الم کشی کی تصویر ہے۔بجلی کے بل ہوں کہ گیس کی رقومات٬کیا کبھی ہم نے احساس کیا کہ سماج کے لوگ کس حال میں ہیں۔تعلیم اس قدر مہنگی کہ قوم طبقاتی نظام تعلیم میں بٹ چکی ۔مدارس ہوں کہ تعلیمی ادارے ماحول بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ غریب کے بچے طرح طرح کے امتحان سے دوچار، کیا کبھی غور کیا؟مزدور کس حال میں ؟غریب کی زندگی تو غم و الم کی
تصویر ہی معلوم ہوتی ہے۔بقول شاعر:-
وہ الم کشوں کا ملنا٬وہ نشاط غم کے ساۓ
کبھی رو پڑے تبسم٬کبھی زخم مسکراۓ
سماج میں اٹھنے والے طوفانوں سے غریب دور رہتے ہوۓ زندگی کی بقاء کی بھیک مانگتے ہیں۔دینی مدارس تو اسلام کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔لیکن سوات میں بچے کی ہلاکت ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔کیا غریب کے بچوں کی زندگی اسی سلوک کی روادار ہے؟ہر گز نہیں۔مہذب اقوام کا شیوہ تو خدمت انسانیت ہے۔تعلیم تو انسان کو انسان بناتی ہے اور مسائل کا حل تلاش کرنے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔زندگی تو رب کریم کی طرف سے امانت ہے۔
Leave a Reply