rki.news
(تاریخی، فکری اور اسلامی تناظر میں ایک تجزیہ)
تحریر: شازیہ عالم شازی
ہر سال 31 اکتوبر کو دنیا کے کئی ممالک خصوصاً مغرب میں “ہیلون ڈے” (Halloween Day) بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس دن لوگ خود کو خوفناک مخلوقات، بھوتوں، ڈائنوں اور شیطانی کرداروں کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک سب نقاب پہنتے ہیں، گھروں کو مردہ خانوں جیسا سجاتے ہیں، اور “ٹرک اور ٹریٹ” کے نام پر ایک ایسا ماحول قائم کرتے ہیں جو بظاہر تفریحی مگر باطن میں انتہائی غیر اسلامی اور فکری طور پر خطرناک ہے۔
ہیلون کی ابتدا قدیم سلٹک (Celtic) تہذیب سے منسوب ہے جو آج کے آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے علاقوں میں آباد تھی۔ وہاں “ساؤون (Samhain)” نامی تہوار منایا جاتا تھا، جس میں یہ عقیدہ رکھا جاتا تھا کہ اس رات مردوں کی روحیں زمین پر واپس آتی ہیں۔اس موقع پر لوگ شیطانی ارواح سے بچنے کے لیے خود کو ان کے مشابہ لباس میں چھپاتے تھے۔ وقت کے ساتھ جب عیسائیت نے یورپ میں جڑ پکڑی تو کلیسا نے اس مشرکانہ رسم کو “All Hallows’ Eve” یعنی مقدسین کی یاد کے دن میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، لیکن حقیقت میں اس کا شیطانی اور جادوئی پس منظر کبھی ختم نہ ہو سکا۔
موجودہ دور میں الیمناٹی اور شیطانی فرقے (Satanic Cults) اس تہوار کو اپنی فکری عید کے طور پر مناتے ہیں، جس کا مقصد انسان کے اندر سے روحانی روشنی کو بجھا کر خوف، وحشت اور بے راہ روی کو فروغ دینا ہے۔ فلموں، موسیقی اور تجارتی مہمات کے ذریعے ہیلون کو ایک “معصوم تفریح” کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک ایسی ثقافتی سازش ہے جو نوجوان نسل کو غیر محسوس انداز میں شیطانی علامتوں سے مانوس کرتی جا رہی ہے۔
اسلامی نقطۂ نظر سے ایسے تمام تہوار جن کی بنیاد شرک، جادو، یا باطل عقائد پر ہو، حرام اور کفریہ ہیں۔ قرآن مجید میں شیطان کے طریقوں سے بچنے کی واضح تلقین کی گئی ہے:
“اے لوگو! شیطان کے نقشِ قدم پر نہ چلو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔” (سورۃ البقرہ: 168)
ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے بچوں اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ نوجوانوں کو مغربی تہذیب کے ایسے مظاہر سے بچائیں، جو بظاہر تفریح مگر حقیقت میں روحانی زوال کا سبب ہیں۔ مسلمان قوم کے لیے اصل فخر اور خوشی کے دن عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ ہیں، جن میں روشنی، شکرگزاری اور انسان دوستی کا پیغام ہے، نہ کہ خوف، اندھیرا اور شیطانی علامتیں۔۔
ہیلون ڈے محض ایک تفریح نہیں، بلکہ ایک فکری و تہذیبی جال ہے جو الیمناٹی نظریات اور شیطانی ثقافت کو عام کر رہا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس دن سے مکمل اجتناب کریں، اپنی نسل کو اس کے پسِ منظر سے آگاہ کریں، اور اپنی شناخت کو اسلامی شعور اور قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر برقرار رکھیں۔
                                     
                                    
                                        
			
	
	
	                                    
                                    
Leave a Reply