rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
ایران کا ایٹمی پروگرام کئی سالوں سےعالمی طور پر زیر بحث رہا ہے۔امریکہ سمیت کئی طاقتوں نے الزام لگایا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام فوجی مقاصد کے لیے ہے،لیکن ایران نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی اور وضاحت کی کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول یا محدود کرنے کے لیےکئی دفعہ مذاکرات بھی کیے گئے،لیکن ہمیشہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ایران کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ دھمکی اور دباؤ کے ذریعےہونےوالے مذاکرات ناقابل قبول ہیں۔امریکہ سمیت کئی قوتیں چاہتی ہیں کہ ایران کے پاس جوہری قوت نہ رہے،کیونکہ ایٹمی ایران ان کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔چند ماہ قبل مذاکرات ہو رہے تھےاور امکان بڑھ گیا تھا کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوں گے،لیکن اچانک اسرائیل نے ایران پر حملہ کر دیا۔اسرائیلی حملے کا جواب بھی ایران نے دیا اور اپنی سلامتی محفوظ رکھنے میں بھی کامیاب رہا۔امریکہ نے دعوی کیا کہ ایران کے ایٹمی مراکز کو نشانہ بنا کر تباہ کر دیا گیا ہے،لیکن ایران کا موقف تھا کہ جوہری مواد محفوظ ہے۔ایران اسرائیل جنگ میں دونوں ممالک کا نقصان ہوا۔ایران کا جوہری پروگرام کئی سالوں سے جاری ہے۔2003 میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی(ائی اے ای اے)نے کہا تھا کہ ایران تقریبا 18 سال سے جوہری پروگرام چلا رہا ہے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رضا شاہ پہلوی نےایٹمی پروگرام شروع کر دیا تھا،بعد میں جب اسلامی انقلاب آیاتو خمینی حکومت نےایٹمی پروگرام میں پہلے پہل دلچسپی نہیں لی،مگر بعد میں عسکری لحاظ سےایٹمی قوت کی ضرورت کو محسوس کر لیا گیا۔یورنیم کی افزودگی شروع کر دی گئی اوریوں جوہری پروگرام عالمی سطح پر زیر بحث آگیا۔ایران پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ جوہری پروگرام کو روک دے،لیکن ایران نےہمیشہ انکار کیا۔ایران پر مختلف قسم کی پابندیاں لگائی گئیں،لیکن ایران ٹس سے مس نہ ہوا۔ایران اب شدید پابندیوں کی زد میں ہےاور حال میں مزید پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔امریکی محکمہ خزانہ نے ان پابندیوں کو 2018 کے بعد سے سب سے بڑی پابندیاں قرار دیا ہے۔موجودہ لگائی گئی پابندیاں 115 افراد،اداروں اور بحری جہازوں کو متاثر کرتی ہیں۔بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی اقتصادی حالت بہت ہی بدترہوچکی ہے لیکن ایران ابھی تک اپنے موقف پرڈٹا ہوا ہے۔ایٹمی پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظرامریکہ کےمخالف چین اور روس نے بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کی مذمت کی ہےاور پابندیاں لگانے اور دباؤ بڑھانے کے مختلف اقدامات میں شامل بھی رہے ہیں۔ایران مسلسل یورنیم افزودہ کر رہا ہےاور افزودہ یورنیم کئی طاقتوں کے لیےبہت ہی دہشت ناک ہے۔یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ایران 60 فیصد تک یورنیم افزدہ کر چکا ہے جو کہ ایٹم بم بننے کےانتہائی قریب ہے۔اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایران ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو چکا ہو۔بالفرض اگر ایران نے ابھی تک ایٹم بم نہیں بنایا لیکن یہ تو واضح ہے کہ وہ اتنی یورنیم افزودہ کر چکا ہے کہ فوری طور پر اس کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر سکے۔کچھ عرصہ قبل جو جنگ ہوئی تھی،شاید اس لیے رک گئی تھی کہ ایران کے مخالفین کو علم ہو گیا تھا کہ ایران ایٹمی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔
ایران اور امریکہ کے درمیان کافی عرصہ سےمذاکرات ہوتے رہے ہیں اور کچھ عرصہ قبل بھی مذاکرات جاری تھے کہ جنگ شروع ہو گئی۔اپ دوبارہ مذاکرات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ایران اب مذاکرات کے لیےتیار نہیں،کیونکہ مذاکرات کے دوران جنگ چھڑنابدعہدی ہے۔ایرانی حکومت اگر مذاکرات پر راضی بھی ہو گئی تو بہت سی شرائط پیش کرے گی۔فائنانشل ٹائمز کو ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایک انٹرویو دیااور کہا کہ وہ یہ وضاحت کریں کہ انہوں نے مذاکرات کے درمیان ہم پر حملہ کیوں کیااور انہیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے۔یہ بھی کہا کہ جوانہیں(ایران کو)نقصان پہنچا ہے،اس کی تلافی کرنا ہوگی۔عراقچی کے انٹرویو سےواضح ہو جاتا ہے کہ ایران اب آسانی سے مذاکرات نہیں کرے گا۔ایک رپورٹ کے مطابق عراقچی نےیہ بھی وضاحت کی ہے کہ ایران یورنیم کی افزودگی پر قائم رہے گا اور اس کی مکمل صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ایران مخالف طاقتوں کو اسی بات کا خدشہ ہے کہ ایران اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے۔ایران کویورنیم سے دستبردار کرنے کے لیےمختلف قسم کی مراعات بھی دی جا سکتی ہیں۔ایران ماضی میں ہر قسم کی مراعات کوبھی ٹھکرا چکا ہے اورایٹمی پروگرام سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ایٹمی ایران مشرق وسطی میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے،اسی لیےہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران کے پاس جوہری توانائی نہ رہے۔اگر مذاکرات شروع بھی ہوتے ہیں توکامیاب نہ ہونے کے امکانات ہیں۔جس طرح عراقچی مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہرجانہ دیا جائےلیکن امریکہ ہرجانہ دینے سےانکار کرے گا۔اگر امریکہ ہرجانہ دینے پر راضی بھی ہو جائے تو اس بات کا امکان نہیں کہ مذاکرات پھر بھی کامیاب ہو جائیں۔اسرائیل،امریکہ یاکوئی دوسری ریاست ایران پر حملہ بھی کر سکتی ہے لیکن ایران ہر حملے کا جواب دینے کے لیے تیار ہے۔امریکہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام کنٹرول کر لیا جائے۔ایران اگر اپنے موقع پر ڈٹا رہتا ہے تو مستقبل میں دنیاکوایٹمی ایران قبول کرنا ہی پڑے گا۔ایران اگر ایٹمی پروگرام سے دستبردار ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ وہ اپنی سلامتی کمزور کر چکا ہے۔آج کے دور میں ایٹمی قوت سلامتی کی ضمانت ہے۔
ہو سکتا ہےامریکی اور عالمی دباؤ ایران کو مجبور کر دے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم کر دے۔اگر ایران ایٹمی پروگرام کو ختم کر دیتا ہے توایران بہت کچھ کھو دے گا۔اب بھی پابندیوں کی وجہ سےشدید پریشانیوں کا شکار ہے لیکن دفاع کے لحاظ سے مضبوط ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند سال کے بعد عالمی طاقت کا توازن تبدیل ہو جائے۔عالمی طاقت کے توازن کے تبدیل ہونے سے کئی قسم کی تبدیلیاں رونما ہو جائیں گی۔اس وقت ایران ایک اہم پوزیشن پر موجود ہوگا۔ماضی میں ایران کی روس اورچین مخالفت کر چکے ہیں لیکن اب اس کا امکان بہت ہی کم ہو چکا ہے۔روس اور چین کے علاوہ کچھ دوسرے ممالک اگر ایران کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات بحال کر دیتے ہیں تو ایران تھوڑی عرصے میں اپنی پوزیشن مضبوط کر سکتا ہے۔بہرحال اب امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں یانہیں،فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ایران افزودہ یورنیم کسی دوسری ریاست کو فروخت بھی کر سکتا ہےاور اس طرح ایٹمی قوت پھیلتی جائے گی۔بہتر یہی ہے کہ ایران کی جوہری قوت کوبرداشت کر لیا جائےاور مناسب حل نکالا جائے۔
Leave a Reply