تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

بارود کا زہر اور انسانیت۔۔

Articles , Snippets , / Monday, September 30th, 2024

تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!امن ایک ایسا شجر سایہ دار ہے جس کے سائبان کےنیچے انسانیت سکھ کا سانس لیتی ہے۔جنگ کا ذکر آتا ہے تو روح کانپ اٹھتی ہے۔یہ کائنات اس قدر خوب صورتی کا پیکر جس میں لالہ وگل٬حسن و رنگ٬عروس و بہار٬جنت نظیر مقامات٬انسانی آبادیاں٬بستے شہروں سے روح افزاء مناظردیکھنے کو ملتے ہیں۔لیکن ان کا حسن اسی صورت قابل دید رہتا ہے جب امن کے پھول کھلیں٬کاٸنات کتنی خوبصورت ہے اسے نظارہ کرنے کے لیے نگاہِ ناز کی ضرورت ہوتی ہے۔بقول شاعر:_
”ایک سے ایک بڑھ کے ملتے ہیں مناظر دلفریب“
لیکن انسانیت امن کی متلاشی موت کے دوراہے پر کھڑی ایک اور تباہ کن جنگ کی منتظر ہے۔لبنان اسرائیل جنگ کے تذکرہ سے روح فرسا کیفیت کی دستک محسوس ہوتی ہے۔ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو تباہ کن جنگوں کا احوال دنیا کو اس قدر غمگین کرتا ہے کہ خیابان دل میں سوچ کے کھلتے پھول مرجھا جاتے ہیں۔ساحر لدھیانوی نے کیا خوب لکھا:-
” خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو یا مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر“
تاریخ عالم کا حوال اس درد نگیز کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔ جب جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر قیامت گزری ایک درد ناک داستان ہے۔ تاریخ کے اوراق کی گردانی سے حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے
6 اور 9 اگست 1945 کودوسری جنگ عظیم میں انسانی تاریخ کا سب سے درد ناک قصہ غم جس سے کائنات کے حسن میں کھلتے گلاب مرجھا گئے ۔ہیروشیما اور ناگا ساکی کے شہر جب لرز اٹھے تو معصوم بچے حصول تعلیم کے لیے تعلیمی اداروں کا رخ کر رہے تھے۔مزدور پیٹ کی خاطر جا رہے تھے تو زندگی کا رواں دواں قافلہ موت کی نذر ہوا۔گویاایسا المناک سانحہ پیش آیا جو آج بھی تاریخ کا بدترین واقعہ مانا جاتا ہے۔اس سانحہ عظیم میں دیکھتے ہی دیکھتے 2 سے 3 لاکھ کے درمیان لوگ مارے گئے۔ آج اس دن کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو آنکھوں سے آنسوں امڈ پڑتے ہیں کہ کیا ایسے انسان بھی ہو سکتے ہیں جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جان بےدردی سے لے لیتے ہیں۔ اس واقعے نے پوری انسانیت کی دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت پگھلنے لگاتھا۔ اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیروشیما اور ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی پیدائشی نقص پایا جاتا ہے۔ ایٹم بم انسانیت کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔ جب بھی اس کا استعمال ہوا ہمیشہ اس نے تباہی مچائی ہے۔بقول شاعر:-
نئے شہروں کو ہم آباد کرنے سے بھی پہلے
پرانی بستیاں ٬مسمار کرتے جا رہے ہیں
جنگوں کے اثرات کتنے تباہ کن ہوتے ہیں شاید اس طرف دھیان ہی نہیں حالانکہ احترام آدمیت تو سب سے اہم ہے۔تباہ کن جنگیں جہاں اور جس عہد میں ہوئیں ان سے یہی تاثر ملتا ہے کہ انسانیت بارود کے ڈھیر پر زندہ رہنے پر مجبور ہے۔امن ہی تو ایسا خوبصورت عمل ہے جس سے بزم کاٸنات کی رونق ہے۔لیکن المیہ ہے کہ بقول شاعر:-
زمیں اجاڑ رہے ہیں زمیں کے پہردار
کہاں گۓ وہ چلن بستیاں بسانے کے
جنگ کی ہولناکیاں کس قدر اذیت ناک ہوتی ہیں شاید امن اور انصاف کے علمبردار حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے ۔جنگ سے کس قدر بربادی ہوتی ہے اس کا احساس نہیں رہا۔جن ممالک یا علاقوں پر بارود گرایا جاتا ہے وہاں انسانیت کا خون ہوتا ہے اور لاشوں پر نوحے ہوتے ہیں۔شہر ویران اور بستیاں اجڑتی ہیں۔پہلی جنگ عظیم ہو کہ دوسری جنگ عظیم٬عراق و افغانستان کی المناک داستان ہو کہ غزہ اور لبنان کی افسردہ داستان جنگ کے نام سے وحشت ہوتی ہے۔عصر نو میں قیام امن ناگزیر ہے۔دنیا کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ جنگیں مساٸل حل نہیں کرتیں بلکہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔امن چونکہ ایک جامع نظام ہے جو فرد اور معاشرہ اور اقوام عالم کی فلاح وبہبود اور تعمیروترقی کے لیے ناگزیر ہے۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جنگ و جدل کے ماحول میں زندگی کا بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں بلکہ پورا نظام حیات متاثر ہوتا ہے۔بارود کے زہر سے متاثر انسان اور حیوان کا زندہ رہنا مشکل ہوتا ہے۔اس لیے فقط یہ احساس زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔بقول شاعرہ :
چھوڑو بھی یہ جنگ کی باتیں
خون خرابے کی یہ گھاتیں
جنگ کی بھڑکی آگ بجھاؤ
امن کی ٹھنڈی چھاؤ ں میں آؤ
بچے اور بچوں کی مائیں
امن کی رکھتی ہیں آشائیں
جنگ کی بھڑکی آگ بجھاؤ
امن کی ٹھنڈی چھاؤں میں آؤ
ننھے منے پیارے بچے
کہتے ہیں یہ سارے بچے
جنگ کی بھڑکی آگ بجھاؤ
امن کی ٹھنڈی چھاؤں میں آؤ (سیدہ فرحت)
جنگ کی باتیں قطعی طور پر امن کے لیے اچھا شگون نہیں ۔تازہ ترین حالات میں لبنان اسرائیل کشیدگی خطرہ کی گھنٹی ہے۔مغربی دنیا اور روس کے درمیان جنگ کی باتیں قابل غور ہیں۔دنیا کے مصفوں کو چاہیے کہ ان حالات کو سدھارنے میں کردار ادا کریں۔سلامتی کونسل ذمہ دارانہ کردار ادا کرے تاکہ امن کی فضا برقرار رہے۔جںگ سے تو انسانیت کا استحصال ہوتا ہے اور کائنات کا حسن برباد۔اس وقت اچھے ماحول کی دنیا کو ضرورت ہے۔جنگ زدہ اور مفلوک الحال ملکوں اور علاقوں میں جا کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔بقول شاعر:-
کبھی افلاس کی بستی میں جا کر تم ذرا دیکھو
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International