rki.news
برصغیر کی دو ہمسایہ ریاستوں ، بھارت اور پاکستان، کے درمیان کشیدگی کی تاریخ قیام پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ حالیہ انڈیا-پاکستان جنگ نے ایک بار پھر خطے کو جنگ کی تباہ کاریوں، انسانی المیوں اور عالمی سفارتی تنقید کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس جنگ میں نہ صرف فوجی اور مالی وسائل کا بے پناہ ضیاع ہوا بلکہ دونوں ممالک کے عام شہری ذہنی و جسمانی اذیتوں کا شکار ہوئے۔ “کیا کھویا کیا پایا” کا سوال اس وقت اور بھی اہم ہو جاتا ہے جب جنگ کے نتائج کا بغور جائزہ لیا جائے۔
حالیہ جنگ کا پس منظر روایتی سرحدی کشیدگی کے ساتھ ساتھ مذہبی، سیاسی اور معاشی وجوہات سے جڑا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر حملے، فضائی دراندازی، اور سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ نے ماحول کو مزید زہریلا کر دیا۔ بھارت نے اپنی عسکری کاروائی کو “دہشتگردی کے خلاف کارروائی” قرار دیا جبکہ پاکستان نے اسے “جارحیت” اور اپنی خودمختاری پر حملہ تصور کیا۔ اس کشیدگی میں لائن آف کنٹرول پر گولہ باری، شہری آبادی پر حملے اور جانی نقصان کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے۔
عسکری لحاظ سے دیکھا جائے تو دونوں ممالک نے بھاری مالی و جانی نقصان اٹھایا۔ بھارت کو اپنی فضائیہ کے ایک طیارے کے تباہ ہونے اور پائلٹ کے گرفتار ہونے کا سامنا کرنا پڑا، جو بعد میں پاکستان نے جذبہ خیرسگالی کے طور پر واپس کیا۔ پاکستان کی جانب سے بھی سرحدی علاقوں میں کئی فوجی اور سویلین ہلاکتیں ہوئیں۔ ان نقصانات کے باوجود دونوں ممالک نے جنگ کو باقاعدہ اعلان شدہ جنگ کی شکل اختیار کرنے سے روکا، مگر یہ محدود تصادم بھی خطے کے امن کے لیے خطرناک ثابت ہوا۔
معاشی اعتبار سے جنگ نے دونوں ممالک کی معیشت پر تباہ کن اثر ڈالا۔ دفاعی اخراجات میں اضافہ، اسٹاک مارکیٹ میں گراوٹ، اور غیر یقینی فضا نے سرمایہ کاری کے رجحان کو شدید متاثر کیا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ اخراجات عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنے۔ دوسری طرف بھارت میں بھی دفاعی اخراجات اور جنگی تیاریوں نے سماجی ترقی کے منصوبوں کو محدود کر دیا۔
انسانی نقصان کا اندازہ صرف لاشوں کی گنتی سے نہیں لگایا جا سکتا۔ جنگ نے بے شمار خاندانوں کو اجاڑ دیا۔ ہزاروں افراد سرحدی علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اسکول بند ہو گئے، ہسپتالوں تک رسائی محدود ہو گئی، اور نفسیاتی دباؤ نے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی زندگیوں کو متاثر کیا۔ نفرت، خوف، اور بے یقینی نے انسانی تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا۔
عالمی سطح پر دونوں ممالک کی پوزیشن کو بھی اس جنگ نے متاثر کیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی اداروں نے جنگی کاروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔ اقوام متحدہ، چین، امریکہ، اور دیگر طاقتوں نے دونوں ممالک سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔ یہ جنگ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت بنی کہ جنوبی ایشیا کا امن ایک نازک توازن پر کھڑا ہے جسے کسی بھی وقت توڑا جا سکتا ہے۔
اس ساری صورت حال میں اگر “کیا پایا؟” کا سوال کیا جائے تو جواب صرف دکھ اور تباہی میں لپٹا ہوا ہے۔ کوئی علاقہ فتح نہ ہوا، کوئی دیرپا مقصد حاصل نہ ہوا، اور نہ ہی عوامی فلاح و بہبود میں کوئی بہتری آئی۔ اگر کچھ پایا گیا تو وہ صرف عارضی سیاسی مقبولیت، قومی جذبات کو ابھارنے کی وقتی کامیابی، اور جنگی معیشت سے فائدہ اٹھانے والوں کی چاندی تھی۔
اس کے مقابلے میں “کیا کھویا؟” کی فہرست بہت طویل ہے۔ قیمتی جانیں، مالی وسائل، سماجی اعتماد، بین الاقوامی ساکھ، اور خطے کا امن سب کچھ داؤ پر لگ گیا۔ نفرت کی فضا مزید گہری ہوئی، اور مستقبل میں امن کے امکانات اور بھی کمزور ہو گئے۔
آخرکار یہی کہا جا سکتا ہے کہ جنگ کے میدانوں سے کبھی دیرپا کامیابیاں حاصل نہیں ہوتیں۔ بھارت اور پاکستان جیسے جوہری طاقتوں کے درمیان جنگ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے۔ دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھیں، بات چیت اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں، اور اپنے وسائل تعلیم، صحت، اور ترقی پر صرف کریں تاکہ آئندہ “کیا پایا؟” کے جواب میں تباہی کے بجائے ترقی کا ذکر ہو۔
حوالہ جات:
1. Hussain, Rizwan. Pakistan and the Emergence of Islamic Militancy in Afghanistan. Routledge, 2005.
2. Ganguly, Šumit. Conflict Unending: India-Pakistan Tensions Since 1947. Columbia University Press, 2001.
3. International Crisis Group. “India-Pakistan Relations and the Unending Conflict in Kashmir.” ICG Asia Report No. 146, 2023.
4. United Nations Human Rights Office. “Impact of Conflict on Civilians in South Asia.” UN Report, 2024.
5. Stockholm International Peace Research Institute (SIPRI). “Military Expenditure Database.” 2024.
Leave a Reply