Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بزمِ اردو قطر کے زیرِ اہتمام: ’آرزو کا دیا‘ کی رسمِ رونمائی و محفلِ مشاعرہ — ایک تہذیبی و جمالیاتی تجلی

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Friday, July 4th, 2025

 

rki.news

بزمِ اردو قطر صرف ایک ادبی تنظیم نہیں بلکہ اردو زبان کی تہذیبی روح، فکری بلندی، اور جمالیاتی لطافت کی آئینہ دار ایک ایسی زندہ روایت ہے جو دیارِ غیر میں اردو کی محبت، اس کے دلنواز لہجے اور ادبی وقار کو کچھ اس ناز و ادا سے اپنی آغوشِ شوق میں سمیٹے ہوئے ہے گویا دوحہ کے ریگزار میں یہ بزم ایک سر سبز و شاداب نخلِ ادب ہے جس کی شاخ ہائے خیال پر گزشتہ چھ دہائیوں سے ہر موسم میں تخلیق کے رنگ برنگے پھول اپنی دلکش شگفتگی اور جاں فزا نکہت آفرینی سے شعر و سخن کی معطر فضائیں بکھیر رہے ہیں۔ جن کے لب و رخسار پر نہ صرف کلاسیکی ادب کی خوشبو رچی بسی ہے بلکہ جدید فکر و اظہار کی رنگت بھی جلوہ گر ہے۔ اسی درخشندہ روایت کا ایک اور تابناک باب اُس وقت رقم ہوا جب گزشتہ شام، بتاریخ 27 جون 2025 دوحہ کے ممتاز ہوٹل دوسیت ڈی۔2 کے نفیس و دل آرا ہال میں ایک پُروقار، پُرکیف اور معنویت آفریں تقریبِ رونمائی و مشاعرہ منعقد ہوا۔ جس کا مرکزِ نگاہ، محورِ احساس، اور روحِ سخن تھیں ۔۔۔صوتِ سازِ نسوان، خیال کی مہتاب، نکہتِ فکر، صریرِ دل، محترمہ ثمرین ندیم ثمر اور ان کا دوسرا مجموعۂ کلام ”آرزو کا دیا”. ثمرین ایک ایسی خوش نوا شاعرہ ہیں جن کی زبان میں شبنمی نرمی، لہجے میں دل کی لوچ، اور بیان میں جذبات کی پور پور بیداری پائی جاتی ہے۔
یہ تقریبِ رونمائی اپنے باطن میں ایک فکری جشن ایک تہذیبی لمحہ اور اردو ادب کے جمالیاتی تسلسل کی ایک خوبصورت کڑی تھی۔ جس کی صدارت کہنہ مشق شاعر اور سخن فہم ادیب شیراز احمد بکالی نے فرمائی۔ جبکہ مہمانِ اعزازی کے منصب پر عصرِ حاضر کی دردمند آواز، حُسنِ بیان سے ہم آشنا شاعرہ اور باذوق تخلیق کار محترمہ ثمرین ندیم ثمر جلوہ افروز تھیں، جن کا شعری مجموعہ اس تقریب کا مرکزِ جمال تھا۔
نظامت کا شرف معروف نقاد، صاحبِ بصیرت ادیب صاحبِ اسلوب نثر نگار، خاکہ نگاری میں یکتائے روزگار، نفیس ذوق کے امین، شستہ گو اوراور بزمِ اردو قطر کے چیئرمین ڈاکٹر فیصل حنیف کو حاصل ہوا۔ جنھوں نے اپنی نرم گفتاری، ادبی لطافت اور فکری ژرف نگاہی سے محفل کو آغاز ہی سے ایک باوقار اور ہم آہنگ فضا بخشی۔ انہوں نے مہمانانِ ذی وقار، اہلِ سخن، شعرا اور نثر نگاروں کو نہایت پرخلوص انداز میں خوش آمدید کہا اور پھر جوشِ خطابت میں جوش ملیح آبادی کی ایک پُراثر نظم پیش کر کے اردو زبان کی دلکشی اس کی تہذیبی عظمت اور لسانی شکوہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ حسنِ اتفاق سے اس موقع پر جوش ملیح آبادی کی دو نواسی زادیاں، جو شیراز احمد بقالی کی صاحبزادیاں ہیں، سامعین میں موجود تھیں۔ گویا اردو کا ماضی، حال اور مستقبل ایک ہی بزم میں ہم نفس ہو گئے تھے، اور نسب کی لطیف پرچھائیاں زبان کے جمال میں گھل مل گئی تھیں۔ کتاب کی رسمِ رونمائی سفیرِ پاکستان عزت مآب محمد عامر کے دستِ مبارک سے نہایت تزک و احتشام کے ساتھ انجام پذیر ہوئی جو بلاشبہ اہلِ ذوق کے لیے لحظۂ سعادت تھا جس موقع پر انہوں نے اردو زبان اور ادب کی تہذیبی اہمیت اور فکری گہرائی کو مؤثر انداز میں اجاگر کیا جس میں انہوں نے اردو کو محض زبان نہیں، بلکہ ایک زندہ روایت اور فکری ورثہ قرار دیا جو انسان کی سوچ، مزاج اور اقدار کو تشکیل دیتا ہے۔
پھر بزمِ اردو قطر کی ادبی کاوشوں پر ان کا پُرجوش خراجِ تحسین اور جذبے سے لبریز گفتگو سامعین کے دلوں کو چھو گئی، اور محفل دیر تک تالیوں سے گونجتی رہی۔ رسمِ رونمائی میں دیگر مہمان شرکا میں ہندوستان سے تشریف فرما معروف شاعر و ادیب پروفیسر غضنفر علی اور شاذ جہانی بھی شامل تھے۔
تقریبِ رونمائی کی روحِ رواں وہ علمی و ادبی مقالات تھے، جنہیں اردو ادب کے مستند اہلِ قلم شبّر علی، رانا انور علی، فرزانہ صفدر، زینت لکھانی، ریاض احمد بکالی اور صدرِ محفل شیراز احمد بکالی نے نہایت وقار، بصیرت اور شائستگی سے پیش کیا۔ یہ مقالات محض ستائش نہیں، بصیرت، تنقید اور جمالی ادراک کا حسین امتزاج تھے۔ فرزانہ صفدر نے کلام کی نسائی لطافت اور جذباتی تہذیب کو نہایت لطیف انداز میں اجالا، زینت لکھانی نے شاعرہ کی علامت نگاری، صوتی آہنگ اور تخلیقی جُوت کو محسوساتی زبان میں سمیٹا۔ شبّر علی اور رانا انور علی نے فکری ساخت، تہذیبی تسلسل اور عصری معنویت پر گہری روشنی ڈالی، جب کہ ریاض احمد بکالی نے ایک نظم آرزو نامہ پیش کرکے اشعار میں جذبہ، تجربہ اور روحانیت کی لہریں دریافت کیں اور آخر میں جناب شیراز احمد بکالی کا مقالہ، جو اس محفل کا فکری اوج بن کر اُبھرا۔ ان کا اسلوب گویا ایک تجربہ کار شاعر کا دوسرے تخلیق کار سے ایک سنجیدہ، سچا، اور سرشار جس میں نہ صرف کلام کی زیریں پرتوں کو آشکار کیا گیا تھا بلکہ خود تخلیق کے عمل کو ایک روحانی واردات کے طور پر بیان کیا گیا تھا کہ کیسے شاعر اپنی ذات کے دھندلکوں سے گزر کر ایک کائناتی شعور سے ہم کلام ہوتا ہے۔
یہ مقالات ایک طرف شاعرہ کے فن کا ادبی اعتراف تھے، تو دوسری جانب اردو تنقید کی اس روایت کے نمائندہ جو تخلیق کے ساتھ احترام و شعور کا رشتہ نبھاتی ہے۔

فکری مقالات کے بعد، معروف اور کہنہ مشق، پختہ لب و لہجے کے حامل ممتاز شاعر منصور اعظمی اور منفرد تخلیقی حس، جدتِ خیال، زبان و بیان پر کامل دسترس رکھنے والے، نظم گو، غزل کار اور فنِ قطعۂ تاریخ کے صاحبِ کمال فنکار حلقۂ ادب اسلامی قظر کے صدر مظفر نایاب کے دلنشین شعری نذرانوں نے محفل کو ایک نئے جمالیاتی رنگ سے آشنا کیا۔

تقریب کے اس حصے کا جمالیاتی نقطۂ عروج وہ لمحہ تھا جب عبدالرحمن ندیم اردو کے سچے نباض اور ثمرین ندیم کے ہم نوا اور اس تقریب کے میزبان نے لب کشائی کی۔ ان کے پُراثر خطاب میں نہ صرف اپنی شریکِ حیات کے شعری سفر کی نازک کاری کا اعتراف تھا، بلکہ اردو زبان کی تہذیبی بقا اور نسلِ نو تک اس کے جمالیاتی تسلسل کی دھیمی، مگر پُرسوز بازگشت بھی سنائی دی۔

کتاب کی پُر شکوہ اور وقار آفریں رسمِ رونمائی کے بعد ایک نہایت پُر بہار اور یادگار محفلِ مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ملک کے نامور اصحابِ سخن نے شرکت فرما کر محفل کو اعتبارِ فن اور حرارتِ ذوق عطا کی۔ اس شامِ سخن میں جن خوش نوا شعرا نے اپنے نادر و نایاب کلام سے محفل کو گلزار بنایا، ان میں صدر محفل شیراز احمد بکالی، ہندوستان سے تشریف لائے مہمان شاعر شاذ جہانی (الوک کمار شریواستو) اور پاکستان سے تشریف فرما مہمان شاعر یونس عظیم اور زینت لاکھانی کے علاوہ منصور عظمی، مظفر نایاب، جمشید انصاری، رانا انور علی، فیاض بخاری کمال، ثمریں ندیم ثمر، فرزانہ صفدر، شبّر علی، اور شاہ زیب شہاب شامل ہیں۔

ہر شاعر نے اپنے فکر انگیز اشعار، منفرد اسلوبِ بیاں، اور ندرتِ خیال سے محفل کو اس قدر مملؤ از کیف و سرور کر دیا کہ گوشِ سامعین سحر زدہ اور دل تحسین کے نغمات سے لبریز ہو اٹھے۔ ان اصحابِ فن کے کلام نے نہ صرف اہلِ ذوق کو محظوظ کیا بلکہ جذبات و خیالات کی ایسی گہرائیوں کو بھی بیاں کیا جو سامعین کے دل و دماغ پر دیرپا نقش رہیں گی۔ محفل کی فضا داد و تحسین کی گونج، شعری وجدانی کیفیت، اور تخلیقی جمالیات کی خوشبوؤں سے معطر تھی گویا لفظوں کی خوشبو سے مہکی ہوئی ایک روح پرور ساعت، جو یادوں کے گلشن میں ہمیشہ کھلتی رہے گی۔
اختتامی کلمات کے دوران ناظم مشاعرہ ڈاکٹر فیصل حنیف نے انگریزی زبان میں اُن تمام معزز مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جو اردو زبان سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی اس ادبی محفل کی رونق بنے۔ انہوں نے اردو شاعری کی لا متناہی تخیلاتی وسعت اور جذباتی گہرائی کو نہایت نزاکت اور فنِ لطیف کے ساتھ انگریزی شاعری کی جمالیاتی نزاکتوں کے آئینہ میں پیش کیا، جس سے محفل کی شان و شوکت میں اضافہ ہوا اور شعر و سخن کے اس حسین امتزاج کی خوبصورتی اجاگر ہوئی۔
بزم کے قابل میڈیا سیکرٹری ارشاد احمد نے اختتام پر تمام حاضرین، شعراء کرام اور معزز مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا، جن کی شرکت و موجودگی نے اس محفل کی رونق اور شان میں بے مثال اضافہ کیا۔ انہوں نے اس شب کی ادبی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسی محافل نہ صرف زبان و ادب کے ثقافتی گہرے سمندر کی خدمت میں ممد و معاون ہوتی ہیں بلکہ یہ جذباتی ربط و ہم آہنگی کے لطیف ترین پل بھی قائم کرتی ہیں۔ یوں ہم سب مل کر اس نفیس و پُرمعنی سفر کے مسافر بنتے ہیں، جو الفاظ کے سحر انگیز جادو سے دلوں کے درمیاں ایک اٹوٹ تعلق قائم کرتا ہے۔

“محفلِ سخن کی لطیف فضا سے انتخاب کیے گئے چند نکہت بیز اور نغمہ ریز اشعار، اہلِ ذوق کی نذر، بصورتِ خراجِ سخن پیش کیے جا رہے ہیں۔
کسی نے پارسائی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے
کسی نے خوشنمائی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے
حقیقت بھولنے کی بے حسی وہ رنگ لائی ہے
کہ سب مُردوں نے زندوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے
شیراز احمد بکالی

اِک تجسُّس مُجھ کو تیرے نقشِ پا تک لے گیا
پِھر مِلا جو راستہ از خود خُدا تک لے گیا
اب رہی اختر شُماری کی نہ گُنجائش کوئی
کہکشاں کیا، ابر تو میرا سما تک لے گیا
شاذؔ جہانی (آلوک کمار شریواستو)

تاریخ سدا سے یہی دیتی ہے گواہی
تفریق زباں سے ہوئی قوموں کی تباہی
میراث یہ اردو کی ہے نسلوں کی امانت
اس گنج گراں مایہ کی کرنا ہے حفاظت
زینت کوثر لاکھانی

خاک ہی کے ، نہ آسماں کے ہیں
ہم سے آوارہ ، کِس جہاں کے ہیں
یہ ، جو نقشِ قدم ہیں منزل تک
یہ نِشاں مُجھ سے بے نِشاں کے ہیں
یونس عظؔیم

بنا اس کے حکم سے کہہ سکوں کوئی شعر میری مجال کیا
یہ اسی کا فضل عظیم ہے مرا اس میں کوئی کمال کیا
ہے متاع عیش و طرب سے ہی مرے ننھیں بچوں کو واسطہ
انھیں کیا خبر ہے کہ ہوتا ہے غم و درد رنج و ملال کیا
کیا
منصور اعظمی

تعمیلِ خُرافات میں مصروف ہو کیونکر
جب حکم نبی حکم خدا اور ہی کچھ ہے
نایاؔب مضامیں سے مزیّن ہے غزل ہار
انداز تمہارا یہ نیا اور ہی کچھ ہے
مظفر نایاؔب

ساری دنیا کہہ رہی ہے جس کا دیوانہ مجھے
آج مجھ سے اُس نے ہی پوچھا کہ پہچانا مجھے
میں سمجھتا تھا کہ کوئی اور ہے قاتل مرا
کس قدر الجھا دیا ہے تیرا گھبرانا مجھے
جمشید انصاری

بات کروں حیرانی سے
جب بھی آنکھ کے پانی سے
میں مشکل سے بھولا ہوں
وہ مجھ کو آسانی سے
انور علی رانا

در حقیقت ہیں وہی صاحب ثروت جگ میں
قلب سینے میں جو رکھتے ہیں تونگر اپنا
ان سے کہہ دو کہ نتیجے میں فقط خواری ہے
بے سبب دکھڑا سناتے ہیں جو در در اپنا
سید فیاض بخاری کمالؔ

نام آئے مرا ہونٹوں پہ ترے نام کے ساتھ
بیتے ہر دن مرا جو تری حسیں شام کے ساتھ
کب تغیر کو کبھی روک سکی ہے دنیا
وقت چلتا ہی رہا گردش ایام کے ساتھ
ثمرین ندیم ثمر

کسی کا ہوکے نہ اب کے آنا، ہماری جانب کبھی خدارا
محبتوں میں نہیں ہے جائز ،کوئی حلالہ کوئی کفارہ
ادھر تو ہم کو یہی ملے ہیں، ادھر ملیں گی انہیں تو حوریں
نصیب تو تم ہمارے دیکھو، ادھر خسارہ، ادھر خسارہ
فرزانہ صفدر

تمہیں ساحل پہ رکھنا خود کو پھر غرقاب دیکھنا
محبت میں جنوں کے آج تم آداب دیکھنا
عجب اک گومگو میں آج کل ہے زندگی اپنی
کہ شب بھر جاگتے رہنا مگر خواب دیکھنا
شبر علی

یہ عمر اور یہ جواب و سوال ، حیرت ہے
ذرا سی آنچ پہ اتنا ابال ، حیرت ہے
عزیز بھی ہے تمہیں لمسِ خامشی کا سرور
بضد بھی ہو کہ ہو شورِ ملال، حیرت ہے
شاہ زیب شہاب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رپورٹ: شاہ زیب شہاب
سکریٹری نشر و اشاعت، بزم اردو قطر


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International