بزمِ اردو قطر سرزمینِ قطر کا وہ سر سبز و شاداب چمنستانِ اردو ادب ہے جس کے رنگ برنگ اور نکہت بیز لالہ و گل کی بھینی بھینی خوشبوؤں سے فضائے شعر و سخن کی چھ دہائیاں مشامِ جاں معطر کرتی آرہی ہیں ۔ بزم نے گلشنِ سخن میں اپنی ادبی رنگ و بو کی دلآویزی اور شعری تر و تازگی کی نشاط انگیزی سے آراستہ فکر و فن کی بادِ بہاری کو بحال رکھتے ہوئے گزشتہ شب رائل اقصیٰ، دوحہ کے خوش نما اور پرکشش ہال میں حسبِ روایت ایک انتہائی روح پرور اور جاں بخش جشنِ بہارِ سخن کا انعقاد 21 فروری 2025 بروز جمعہ کی شام کو کیا جسے صاحبِ ہوٹل تعریف الدین نے اسپانسر کیا۔ اس پُر وقار جشن کے مسندِ صدارت پر صاحبِ اسلوب نثر نگار و نقاد اور دلکشی، جاذبیت، ادبیت، معنویت اور تہداری سے آراستہ خاکوں کے خالق بزم کے چیئرمین ڈاکٹر فیصل حنیف جلوہ افروز ہوئے جبکہ مترنم آواز کے مالک قتیل بھٹی نے مہمانِ خصوصی اور بزم کے دیرینہ ساتھی فطری فن کار اور آہنی لب و لہجے کے نامور شاعر منصور اعظمی نے مہمانِ اعزازی کی شہ نشین کو تابِ جمال عطا کی۔ بزم کے قابل رکن زبان و بیان کی رنگینی و شیرینی اور تخلیقی ادب کی فنکاری و پرکار ی سے آشنا ڈاکٹر وصی الحق وصی نے نظامت کے تاج میں کوہِ نور آویزاں کیا اور اپنی ادبی رعنائی، عبارت و اشارت اور طرزِ ادا سے سامعین کی سماعتوں کو لولو و مرجان سا مشاعرے کی ڈور سے پروئے رکھا۔ ناظمِ مشاعرہ کے فرزند حمدان کے خوش الحان تلاوت قرآن پاک سے بابرکت آغاز ہوا۔ بزم کے قابل جنرل سیکریٹری، سادگی میں پرکاری اور شدتِ احساس و گہرے شعوری روئے کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ہمہ وقت شاعر و ادیب افتخار راغب نے شعرا و سامعین کا بڑے ہی والہانہ انداز میں استقبال کرتے ہوئے بزم اردو قطر کی اردو ادب میں نمایاں کارکردگی پر مختصر روشنی ڈالی نیز ادب نواز ، سخن شناس خود کو مریضِ اردو کہنے والے عہد ساز ہستی حسن عبد الکریم چوگلے کے سانحۂ ارتحال پر غم و ملال کا اظہار کیا اور دعائے مغفرت فرمائی۔ مرحوم کا بزمِ اردو قطر ہی نہیں بلکہ بے شمار ادبی، فلاحی، سماجی اور تعلیمی اداروں اور تنظیموں سے دیرینہ تعلق تھا، جن کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے بعد ناظمِ مشاعرہ نے اس شاندار جشنِ سخن کا رخ شعر و شاعری کی طرف موڑا اور مشاعرے کے آغاز سے قبل مہمانِ خصوصی قتیل بھٹی کو پُر کیف ترنم میں قتیل شفائی کی غزل پیش کرنے کی دعوت دی اور موصوف نے اپنی مسحور کن آواز و انداز کا جادو جگاتے ہوئے باذوق سماعتوں کو بے انتہا حظ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے بعد مشاعرے میں بیج ناتھ شرما منٹو ، سہیل احمد نیپالی ، شاہ زیب شہاب، فیاض بخاری کمال ، جمشید انصاری، ڈاکٹر وصی الحق وصی، مظفر نایاب، افتخار راغب اور منصور اعظمی جیسے چنندہ اور نامور شعرا کے تازگی و لطافت ، شگفتگی و نغمگی سے بھرپور کلام اور طرزِ کلام نے سامعین کے لیے روح کی بالیدگی کا خوب سامان فراہم کیا۔ جس کے عوض میں داد و تحسین کی بہاریں کاشانۂ شعرا پہ خوب مہربان رہیں۔ صدر مشاعرہ ڈاکٹر فیصل حنیف اور مہمانان گرامی قتیل بھٹی و منصور اعظمی کے تاثراتی کلمات کے ساتھ یہ جشنِ سخن اپنی تکمیل تک پہنچا جس میں انہوں نے بزم اردو قطر کے ادبی حسن و خیر اور فنی امتیاز و تنوع کی ہم آہنگی کو سراہتے ہوئے اسے ذوق حسن، ذوق فکر اور ذوق عمل کو نہ صرف آسودۂ خیال کرنے والی بلکہ حرکتِ شوق میں لانے والی ایک منفرد تنظیم بتایا اور جہانِ شعر و سخن میں اس کی آفاقیت اور آبیاریِ اردو میں اس کی ہمہ گیریت کا اعتراف کرتے ہوئے مشاعرے کی کامیابی پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی۔ اس طرح اس مشاعرے نے جہاں اپنے چاہنے والوں کے پہلو بہ پہلو کامیابی کے منازل طے کیے وہیں اپنے مربی و سخن پرور بزم کے قابل صدر محمد رفیق شاد آکولوی کی ناموجودگی کے کرب سے بھی دوچار رہا جو وطنِ عزیز میں تعطیل کے اچھے دن گزار رہے ہیں۔ صاحبِ صدر ڈاکٹر فیصل حنیف نے شعرا کے منتخب کلام اور سامعین کی بے ساختہ و برمحل داد و تحسین کے ساتھ ڈاکٹر وصی الحق وصی کی برجستہ و عمدہ اشعار سے مزین نظامت کی بھی خوب تحسین فرمائی۔
بزم کے جنرل سیکریٹری نے گلہائے تشکر پیش کرتے ہوئے مہمانان و تمام شعرا و سامعین کے شکریے کے ساتھ رائل اقصیٰ کے مالک تعریف الدین صاحب کا بھی شکریہ ادا کیا۔
مشاعرے میں پیش کیے گئے کلام سے کچھ منتخب اشعار:
حسنِ افکار بھی غصے کے سبب جاتا ہے
طیش میں آؤں تو لہجے سے ادب جاتا ہے
نیند آنکھوں سے نہ جانے کہاں کھو جاتی ہے
سلسلہ خواب کا وہ توڑ کے جب جاتا ہے
منصور اعظمی
عجیب حال ہے اے دل، عجب اُداسی ہے
لہو بھی ہے کہ رگ و پے میں اب اُداسی ہے
وہ ایک شوخ جو محور ہے میری غزلوں کا
ہے نام اُس کا محبت، لقب اداسی ہے
افتخار راغبؔ
کُل اثاثے وہی اسبابِ سفر سے نکلے
وقتِ رخصت جو ترے دیدہ تر سے نکلے
گو جلایا تھا گلستانِ مقدّس تم نے
آگ کے شعلے گلستانِ دِگر سے نکلے
مظفر نایاؔب
بند ہوتی نہیں راہیں اک دم
دیکھیے کوئی تو رستہ ہوگا
پہلے آئے تو اندھیرے پہ شباب
پھر کہیں جاکے اجالا ہوگا
ڈاکٹر وصی الحق وصی
کچھ ایسے بوجھ ضرورت کے تھے مرے سر پر
پتا چلا ہی نہیں مجھ پہ کب جوانی تھی
اندھیری رات کا میں آخری ستارہ تھا
مجھے تو روشنی ہر حال میں لٹانی تھی
جمشید انصاری
آئینۂ دل میں بھی بکھرا ہوا پرتو ہے
ٹوٹا ہوا درپن ہے، درپن کا خدا حافظ
اس پھول کی خوشبو سے آنگن بھی مہکتا ہے
گلشن مرا آنگن ہے، آنگن کا خدا حافظ
فیاض بخاری کمال
تم چھوڑ گئے کیسی خلش پیکرِ جاں میں
حدت ہے وہی آنچ کے کم ہوتے ہوئے بھی
آراستہ خوشیوں سے رہیں گھر کے در و بام
ہم ہنستے ہیں تصویرِ الم ہوتے ہوئے بھی
شاہ زیب شہاب
اے آسماں کی وسعتو! ہوجاؤ ہوشیار
نوچے ہیں ہم نے اپنے ابھی بال و پر نہیں
نیپال کی زمین ہے قدرت کا شاہکار
کیوں کر کہوں یہاں پہ وفاؔ معتبر نہیں
وفاؔ نیپالی
سانس جب تک چل رہی ہے دل لگی زندہ رہے
دل کے اک کونے میں ہردم عاشقی زندہ رہے
یاد تم آتے ہو مجھ کو ہچکیوں کے ساتھ ساتھ
فاصلے سے ہی سہی پر دوستی زندہ رہے
ڈاکٹر بیج ناتھ شرما منٹو
رپورٹ: شاہ زیب شہاب
سکریٹری نشر و اشاعت
بزمِ اردو قطر
Leave a Reply