زمل: ہاں کیا پروگرام ہے ؟
میں: ہم 9 بجے پہنچ جائیں گے انشاء اللّٰہ
زوار بھی ساتھ ہوگا ہم موٹر سائیکل پر آئیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوستو میں تو آپ کو مشاعرے کا حال احوال دینا بھول گیا تھا ۔ خیر میں 2 ستمبر کو صبح 6 بجے اٹھا نہا دھو کر تیار ہو کر سات بجے سیالکوٹ سے روانہ ہو گیا ۔ غالباً کوئی ساڑھے سات بجے میں ڈسکے پہچا اور وہیں اپنے دوست زوار علی کا انتظار کرنے لگا ۔ زوار ٹھیک آٹھ بجے میرے پاس آ گیا اور ہم روانہ ہو گئے گوجرانولہ کو ۔ ٹھیک 9 بجے گوجرانولہ میں پہنچ گئے پھر سیدھا ای لائبریری گوجرانولہ کی راہ کی لائبریری میں پہنچے تو دیکھا کہ ہم سب سے پہلے پہنچ گئے ہیں ۔ پھر کیا ناصر زمل کو کال کی اور دریافت کیا کہ وہ کہاں ہے ۔ناصر نے کہا میں جلد آؤں گا تم مہمانوں کا استقبال کرو۔ ابھی تو مہمانوں کا نام و نشان نظر نہ آتا تھا ۔ میں نے اور زوار نے سوچا لائبریری میں کیوں نہ کوئی کتاب پڑھ لی جائی ۔ سو ہم لائبریری کے اندر چلے گئے تو آگے ایک درمیانی عمر کا آدمی بیٹھا تھا ہم نے اس سے اپنی خواہش ظاہر کی تو موصوف نے ایک رجسٹرڈ ہماری طرف کرتے ہوئے گویا ہوئی کہ یہاں اپنا پتہ ، نمبر ، اور شناختی کارڈ نمبر لکھیں خیر یہ کاروائی مکمل کر کے ہم اس کمرے کی جانب لپکے جہاں کتب تھیں۔ میں نے اور زوار نے کتاب منتخب کرنے کے واسطے الماریوں کا بخوبی جائزہ لے رہے تھے ۔ زوار پتہ نہیں کون سی کتاب تلاش کر رہا تھا مگر میں ایک ہی کتاب تلاش کر رہا تھا ” آنگن” مگر مجھے نہیں ملی ۔ میں نے احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا مجموعہ اٹھا لیا ۔ ایک افسانہ شروع ابھی آدھا ہی پڑھا تھا کہ حسنین عرفی تشریف لا چکے تھے میں اور زوار کمرے سے باہر نکل دعا سلام کے بعد عرفی نے ہمیں وہ جگہ دکھائی جہاں مشاعرہ ہونا تھا ۔ عرفی کے ساتھ ایک اور لڑکا بھی تھا وہ ساؤنڈ وغیرہ لگا کر چلے گئے اور ہم نے سوچا کیوں نہ پیٹ پوجا کی جائے ۔ ہم لائبریری سے باہر نکلے تو فرمان بابر( بزمِ زمل کی تنظیم کے ایک رکن) آن دمکے ہم انھیں راستہ بتا کر چلے گئے واپس آئے تو بابر باہر بیٹھا ہوا تھا ہم بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر گزری تو بابر نے کہا چلو یار کوئی کتاب پڑھیں ہم پھر لائبریری میں چلے گئے اور اچانک ہی میری نظر کتاب ” آنگن” پر پڑی پھر تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا ۔ کتاب لے کر دوسرے کمرے میں چلا گیا ایک صفحہ پڑھا کہ ایک دوست ہم کلام ہوا کافی دیر تک اس سے باتیں ہوتی رہیں ۔ زوار حسیب کو لینے لاڑی اڈے چلا گیا پھر مجھے بابر نے بتایا چلو باقی لوگ آ گئے ہیں ۔ پھر ہم مشاعرے کا انعقاد کرنے لگے ۔ غالباً 1,1½ بجے مشاعرہ شروع ہو گیا ۔ کیا ہی شاندار مشاعرہ تھا اس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کس قدر شاندار مشاعرہ ہوا ایک سے ایک بڑھ کر شعر سننے کو ملا۔ آخر میں جناب صاحب صدر ( شہزاد نیر صاحب) نے کلام سنایا ۔ مشاعرہ ختم ہوا تو ہم عرفی کے ہاں چلے گئے تھے صبح سے رات تک نہ کھایا تھا اس لیے بہت بھوک لگ رہی تھی پھر کیا پہلے پیٹ پوجا کی پھر کچھ دوستوں سے باتیں ہوتی رہیں ۔ زمل کچھ مہمانان کو چھوڑنے گیا ہوا تھا اور ہم اس کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے اور روانہ ہوئے ۔ میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ دوستوں کو چھوڑ کر کہیں جاؤں خاص طور پر طاہر عباس امبر کو ۔ وہ تو اتنا حسین لگ رہا تھا کہ چمیاں دینے کو جی چاہتا تھا ۔ خیر میں زوار اور حسیب گوجرانولہ سے روانہ ہوئے راستے میں شدید بارش ہونے لگی ہم ایک کریانہ سٹور کے باہر رک گئے مجھے شدید بھوک کا احساس ہونے لگا پھر کیا شاعرِ مشرق بریانی کا ڈبہ کھول کر وہی بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد اچانک ایک بس پر دھیان گیا جو سیالکوٹ کو جا رہی تھی ہم نے اسے روکا حسیب اور میں اس میں بیٹھ گئے تمام سفر حسیب مجھے شعر سنا سنا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر پھر حسیب لاڑی اڈے چلا گیا اور میں اپنے کرائے کے مکان پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر میں بزمِ زمل کے لیے دعا گو ہوں کہ خدا اسے مزید کامیابیاں عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یارو واقعی شاندار بہت ہی شاندار مشاعرہ گزرا ۔۔۔۔۔۔۔
فاخرؔ کلانچوی
Leave a Reply