Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بس اندھے، گونگے اور بہرے تھے

Articles , Snippets , / Monday, November 3rd, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
صولت فاطمہ شیشے کے برتن پٹخ پٹخ کے مار رہی تھی،پہلے ہوا میں گلاس ایک ایک کر کے لہراتے رہےاور فرش پہ گر کے چکنا چور ہوتے رہے، پھر چینی کی پلیٹیں بھی ایک ایک کر کے ٹوٹتتی چلی گییں. . جب ٹوکری میں رکھے ہوے سارے برتن ٹوٹ گیے تو پھر کیبنز میں رکھے ہوے برتنوں اور دیگر اشیاء کی بدبختی آ گءی،چھ سالہ ٹینا، پانچ سالہ احد اور چار سالہ بخت آور گھر میں مختلف جگہوں پہ سانسیں روکے، دبکے بیٹھے تھے، بلکہ سچ تو یہ کہ چھپے بیٹھے تھے، کاش گھر کے بڑے یہ جان جاییں کہ ان کی آپسی لڑاییاں معصوم بچوں پہ کس برے طریقے سے اثر انداز ہوتی ہیں?
جب. تک برتن ٹوٹتے رہے بچوں کے دل دہلتے رہے مگر جب ان کی ماں نے درشت لہجے میں گالی گلوچ اور کوسنوں کا سیشن شروع کیا تو ان تینوں کے دلوں میں ظلم و بر بریت، درشتگی اور بے غیرتی کے ایسے ایسے زخم.لگے کہ ان کے مندمل ہونے کا کوی امکان نہ تھا، بچے چونکہ من کے سچے ہوتے ہیں بڑے اپنی من مانیاں کر کے اور اپنی طاقت کے بے جا استعمال سے انھیں، ڈرا دھمکا کے اپنے رنگ میں تو رنگ لیتے ہیں مگر جب صولت فاطمہ بے غیرتی کی انتہا کرتے ہوے، اپنے گھر والے اور معصوم بچوں کے سامنے ہاتھ نچا نچا کے بچوں کی بڑی پھپھی ماہتاب آرا کو گالیاں، کوسنے، بد دعاییں اور اللہ جانے کیا کیا کچھ اول فول بکنا شروع کیا تو معصوم بچے دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ پپھپھو مہتاب تو بڑی بیبی، بڑی پیاری، بڑی دیالو تھیں، جب بھی آتیں، سارے گھروں میں تحفے تحائف لاتیں، بچوں کے لیے ٹافیاں اور چاکلیٹ اور پھل تو ضرور لاتیں، مگر بچوں کو سمجھ نہ آ رہی تھی کہ ان کی ماں کیوں خواہ مخواہ میں ہی ان کی پھپھی کو پھپھے کٹنی، مکار اورنجانے کیا کچھ کہے جارہی تھی، برتن توڑے جا رہی تھی اور اس کا غصہ کم نہ ہوتا تھا، بچوں کے اس تماشے کو سمجھ نہ آنے کی کءی وجوہات تھیں، ایک تو یہ انھیں اصل معاملے کی بھنک بھی نہ تھی دوسرے وہ بچے تھے یعنی من کے سچے، انھیں جو دکھای دیتا تھا ان کے لیے وہی سچ تھا، لہذا وہ دبک کے چپ بیٹھے ہوے تھے، صرف وہ ہی نہیں ان کا باپ جو ایک کارخانے میں صبح سے رات تک دیہاڑی کرتا اور رات کو ساری کمای اپنی بیوی صولت آرا کے قدموں میں نچھاور کر کے سرخرو ہو جاتا اور یہی اس کی سب سے بڑی کوتاہی اور نادانی تھی، کسی بھی گھر کے سربراہ کو اپنے گھر کی نگہبانی کسی باغ کے مالی کی طرح سے کرنی چاہیے ورنہ اس گھر کے معاملات ایسے ہی چوڑ ہو جاتے ہیں جیسے اس وقت مسٹر حصار صاحب کے گھر کے ہوے پڑے تھے، بات صرف اتنی تھی کہ مسٹر حصار لودھی نے شادی سے پہلے بڑی آپا سے قرضہ لیا تھا جس کا تحریری ثبوت آپا کے پاس موجود تھا، شادی ہوی اور صولت آرا کچھ اس ذہنیت کی خاتون تھیں کہ انھوں نے گھر میں پاوں بعد میں رکھا اور گھر میں دیواریں اور رخنے پہلے ڈال دیے، لور لور پھرنے والی صولت ارا نے بھاییوں، بہنوں میں ایسی دراڑیں ڈال دیں کہ سب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ رہے ہاں یہ ساری چالیں اور چالاکیاں کھیلتے ہوے صولت آرا نے اس بات کا پورا دھیان رکھا کہ اپنا میکہ چھوٹے نہ اور شوہر کے کسی رشتہ دار سے رشتہ داری رہے نہ، خدا جانے یہ اتنی نرم دل خواتین اپنی سسرالی رشتہ داروں سے اتنا بغض اور اتنی نفرت کیسے پال لیتی ہیں؟ اتنی مشرکانہ
جرات وہ کہاں سے پال لیتی ہیں کہ ایک بیٹے کو ماں سے اور ایک بھای کو بہنوں سے جدا کرنے پہ تل جاتی ہیں اور نہ صرف تل جاتی ہیں بلکہ پوری ڈھٹای سے انھیں جدا کر کے اتراتی بھی پھرتی ہیں اور وہ جو ایک آنگن کے پنکھ پکھیرو تھے نہ صرف ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترس جاتے ہیں بلکہ مرنے کے بعد مرے ہووں کے منہ دیکھنے پہ بھی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں، ہاے ہاے ہاے کتنی ظالم خواتین ہوتی ہیں جو اس طرح کے گناہ کماتی ہیں، تو صولت آرا بھی ایسی ہی ایک ہستی تھیں جنہیں یہ زعم ضرورت سے بھی کچھ زیادہ تھا کہ وہ بڑی ملنسار، صلح جو اور امن پسند ہستی ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس تھی، انھوں نے آتے ہی اپنے، بیگانوں کو وہ لچھن دکھاے کہ سب نے ہی حیرت سے اپنی اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں اور منہ پہ چپ کے تالے لگا لیے کہ عزت بہرحال سب کو ہی بہت پیاری تھی. صولت ارا کی ساری براییاں تو ایک طرف، ان کی سب سے بڑی برای تو یہ ہی تھی کہ خود فٹ فٹ کے دو ٹچ موبائل رکھنے والی بیوی نے شوہر کو ایک عدد بٹنوں والا موبائل دے رکھا تھا اور مسٹر حصار لودھی اتنے بدھو کہ بھرے مجمع میں کہتے کہ میری بیوی نے یہ فون اس لیے مجھے دیا ہے کہ میں سوشل میڈیا پہ نہ تو کوی غلط چیز دیکھوں اور نہ کوی غلط راستہ اختیار کر پاوں، چلیے یہاں تک تو ایک بیوی کی محبت میں گرفتار شوہر کی جی حضوری ظاہر ہوتی ہے مگر جب بہنیں، اپنے سگے بھای سے فون پہ بات کرنے کے لیے بھی صولت آرا جیسی بھابھی کی محتاج کر دی جاتی ہیں تو پھر بڑی تکلیف ہوتی ہے، بہنوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھاکہ سر پیٹیں یا دھاڑیں مار مار کے بین ڈالیں، خیر جب مسٹر ہادی کی شادی کے کءی سال گزرنے کے بعد آپا نے چھوٹی بہن کے توسط سے بھای کو قرض واپس کرنے کا کہا تو صولت آرا نے نہ صرف خواہ مخواہ کی محاذ آرائی کھول لی بلکہ بڑی آپا کو سارے رشتہ داروں میں بدنام بھی کرنا شروع کر دیا حالانکہ انھوں نے تو اپنے بھای سے قرض کی ادائیگی کا ہی ذکر کیا تھا، تو آپ سب بھی کسی کو قرض دیتے وقت گواہوں کی موجودگی میں لکھ پڑھ کر قرض دیا کیجئیے تاکہ بعد میں بڑی آپا کی طرح ذلیل و خوار نہ ہونا پڑے، ویسے سچ تو یہی ہے کہ قرض دے کر نہ صرف آپ ذلیل و خوار ہوتے ہیں بلکہ رشتہ داری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اپنے روپے پیسے سے بھی.اور قرض لینے والے، قرض کی واپسی سے بچنے کے لیے واقعی میں اندھے، گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam. Naureen 1@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International