rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
دل آویز کو شہناے سے بات کرنے کی جتنی زیادہ جلدی اور بے تابی تھی، شہناے کو دل آویز سے بات نہ کرنے کی اتنی ہی بڑی تمنا اور دلی آرزو تھی، یہ آرزووں کا تصادم بھی نہ بڑا ہی دلچسپ اتفاق اور عجب طرح کی الجھن ہی ہوتا ہے، نہ تمنا کو نیند آتی ہے اور نہ ہی تمنا کی بھوک ختم ہوتی ہے بلکہ تمنا کی جڑیں کسی آکٹوپس کی طرح دھیان کے کھیت میں بڑی تیزی سے اپنی جڑیں پھیلاتی ہی چلی جاتی ہیں، اس حد تک کہ تمنا اور خواب جڑوں کے جال میں الجھ کر بے رنگ، بھدے اور بدشکل ہو جاتے ہیں، تمنا نے سات، آٹھ بلکہ نو دس مرتبہ کوشش کی کہ کسی نہ کسی طرح سے َشہانے سے رابطہ ہو ہی جاے، پر یہ رابطوں کی ڈور بھی اسی وقت تک بندھی رہ سکتی ہے جب تلک رابطہ رکھنے والے دونوں فریقین ایک دوسرے کے ساتھ کے دل و جان سے خواہاں ہوں، جونہی ایک فریق کسی بھی وجہ کا شکار ہو کر دانستہ یا نادانستہ طور پر دوسرے فریق کو نظر انداز کر تا ہے، رابطے کی ڈور فوراً سے بھی پہلے ٹوٹ جاتی ہے، تو دل آویز اور شہانے، بچپن کی سہیلیاں، جن کی خوشیاں اور غم بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے، ان کی خوشیاں اور غم ساتھ ہی قہقہے لگاتے اور مل کر ہی روتے دھوتے تھے، ہر خوشی غمی میں ساتھ ساتھ رہنے والی سہیلوں کو بھی حالات و واقعات کبھی کبھی اتنا دور کر دیتے ہیں کہ عقل ماسوائے دنگ ہونے کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتی، دل آویز جس نے شہانے کی ہر آواز پہ لبیک کہا، ہر مشکل میں اس کی ڈھال بنی، اور سچ تو یہ تھا کہ ٹایپ ون ذیابیطس کی شکار شہانے کے گردے جب ناکارہ ہو گیے تھے اور ہر طرف سے ناکام و دل برداشتہ شہانے بڑی آزردگی سے ماسوائے موت کو گلے لگانے کے اور کچھ نہ کر سکتی تھی اس مشکل گھڑی میں دل آویز نے اپنی جان کی بازی لگا کر اپنا گردہ دے کر شہانے کو نیی بلکہ صحت مند زندگی عطا کر دی تھی، وہ اس فرمان کی منہ بولتی تصویر بن چکی تھی کہ جس نے ایک شخص کی جان بچائی، اس نے تمام دنیا کے انسانوں کی جان بچائی. تو دل آویز اور شہانے کا رشتہ اتنی ہی محبت والا تھا کہ شہانے کی سانسیں بھی دل آویز کی قربانی کی مرہون منت ہی تھیں. مگر یہ بات وقت نے یوں ثابت کی کہ جس پہ احسان کرو اس کے شر سے ڈرو، تو ایسا ہی کچھ ان دو گہری سہیلیوں کے ساتھ بھی ہوا، دل آویز اپنی مہربان طبیعت، دوسروں کے دکھ سکھ میں ساتھ دینے کی ادا میں اپنی جان بلب سہیلی کے کام آ گیی، زندگی آگے ہی نہیں بہت آگے نکل گیی، کءی سال بیت گیے شہانے بیرسٹر بن گءی، دل آویز کی جاب بنک میں تھی، وہ ایک جھوٹے غبن کے کیس میں خواہ مخواہ ہی دھر لی گءی تھی،
بے گناہے لوگ جب فراڈ کے مختلف کیسز میں دھر لیے جاتے ہیں تو ایک دفعہ تو ان کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل جاتی ہے ایسا ہی کچھ دل آویز کے ساتھ بھی ہوا تھا؛ والدین گزر چکے تھے، بہن بھائی کوی تھا نہیں، اسے ساری دنیا میں لے دے کے صرف شہانے ہی بچتی تھی، اس نے بڑے مان سے شہانے کو فون کیا، شہانے نے بڑی تسلی سے اس کی بات سنی اور بولی دل آویز میں ذرا دیر بعد بات کرتی ہوں، اور پھر وہ ذرا بعد کبھی نہ آی ، دل آویز اپنے مشکل وقت سے خودہی دھکے کھا کھا کے نکل آی مگر اس کا مشکل وقت اسے اپنی پیاری سکھی شہانے کا اصل چہرہ ضرور دکھا گیا، اس طرح کے مطلب پرست ہمارے اور آپ کے ارد گرد بے شمار پاے جاتے ہیں جنہیں صرف اور صرف اپنے مطلب نکلوانے ہی سے غرض ہوتی ہے، ہاں جب کوی دوسرا انھیں اپنے مشکل وقت میں پکارتا ہے تو یہ کچھ اس طرح کی صداوں میں نمودار ہوتے ہیں، جی ابھی میں رکشے میں ہوں آواز صاف سنای نہیں دے رہی، یا پھر ابھی میں کسی ضروری میٹنگ میں ہوں، یا ابھی میں بازار میں ہوں، ٹھہر کر بات کرتی ہوں اور یقین مانیے یہ دوبارہ کبھی نہیں آتی، اور یہ بس تھوڑی دیر کی گردان ہمارے دل کی چوٹوں میں فقط ایک اور چوٹ کے اضافے کے اور کچھ نہیں نہیں کر پاتی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Leave a Reply