ویسے تو ڈاکٹری ڈاکٹری کیھلتے ہوے بے شمار تلخ و شیریں تجربات ہوے، کبھی کسی نے آ کے کوی کہانی سنا دی تو کبھی کسی نے کوی دوسری، رشتہ داریاں اور دوستیاں جتانے والے تو بے شمار تھے، اپنی غربت کے رونے رونے والے، فیس نہ دینے والے اور فیس کم کرانے والے، مریض چونکہ دکھی ہوتا ہے، کرب و بلا کا شکار ہوتا ہے تو وہ اللہ کے انتہائی نزدیک ہوتا ہے بس اسی شوق میں ہم مریضوں کے درد کا درماں کرتے رہے کہ دکھی دل کی دعا ہمارے لیے بھی ذریعہ بخشش و نجات بن جاے گی، رہ گی بات مال متے کی تو ایک روٹی کھا کے پورا دن بتانے والے اس دنیاوی پھندے کی زیادتی سے ویسے بھی کوسوں دور ہی رہتے ہیں.
بچپن میں یہ کثرت سے سنتے تھے کہ کبھی کبھی کھوٹے سکے بھی چل ہی جاتے ہیں لیکن مشاہدہ ہے کہ کھوٹے سکے تو چلنے میں اپنا ثانی ہی نہیں رکھتے، رانی دای جو ہوش سمبھالتے ہی پنڈ کی عورتوں کی دای بن چکی تھی اور اس کی تشخیص کو شہر کی بڑی ڈاکٹرنی بھی چیلنج نہ کر سکتی تھی، نے چھ منزلہ جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال بنا کے ساری بڑی ڈاکٹرنیوں کو اس ہسپتال میں بھرتی کر چھوڑا تھا اور بڑے مزے سے ایک انگوٹھا چھاپ دای، انتہائی قابل اور فارن کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کی میڈم بن کے بیٹھی بھی ہوی تھی اور نوٹ چھاپنے کی مشین بھی بنی ہوی تھی، تو دیکھ لیجیے ناں کھوٹے سکے کیسے چل رہے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام اور حکمرانوں میں بھی آج کل انھی کھوٹے سکوں کا طوطی بولتا ہے جو بڑے بڑے بلڈوزروں سے لوگوں کی بنی بنای عمارات کے سامنے بنی ہوی سیڑھیوں اور ریمپس کو یوں مسمار کرنے کو عین مذہبی فریضہ سمجھ کے کر رہے ہیں گویا یہ بھی کوئی بہت بڑی عبادت ہی ہو. میرا دل بہت دکھا جب کلینک کے سامنے لگے ریمپ اور سیڑھیوں کو یکسر ہی غایب کر دیا گیا صرف حکمران ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کر کے یہ سوچ لیں کہ ان کی ٹانگ ایک حادثے میں ٹوٹ چکی ہے لوگ انھیں اٹھا کر ہسپتال کے سامنے کھڑے ہیں، ہسپتال کی سیڑھیاں اور ریمپ چیف منسٹر کے ایک اشارے پہ مسمار کیا جا چکا ہے اب مریض کو ہسپتال کے اندر کیسے لے جاییں؟؟؟ ؟؟
مریض کی درد ناقابل برداشت ہے اور اس کے واویلے جان لینے کے درپے ہیں اور چیف منسٹر نے بنا سوچے سمجھے لوگوں کے گھروں اور کاروباری جگہوں میں داخلے کو عملی طور پر ناممکن ہی بنا دیا ہے، لوگ اشیاے ضروریات خریدنے کیا ہوا میں اڑ کر جاییں، بچے اسکولوں میں کیسے داخل ہوں جی؟؟؟؟ ؟؟
خیر یہ ہماری حرماں نصیبی کہ حکمرانوں کے نام پہ جو بھی مسند پہ براجمان ہوا، عوام کو خون کے آنسو ہی رلاتا رہا.
حکمران
اندھا تھا، بہرہ تھا
شاید وہ لٹیرا تھا
چھین کر عوام سے
کھا گیا
لٹا گیا
بے سبب ستا گیا
وہ صبح بڑی خوشگوار اور دلنواز تھی، ہوا کے جھونکے اور ہلکی ہلکی بوندا باندی نے مٹی کی مست سوندھی خوشبو میں ماحول کو عجب ہی پاکیزگی عطا کر رکھی تھی میں اپنے افسانے کی کتاب کو حتمی شکل دے رہی تھی کہ ایک انتہائی خوبصورت چھبیس سالہ مناسب قد و قامت کی لڑکی اپنے روٹین کے چیک اپ کے لیے روم میں داخل ہوی، اس نے ہلکے گلابی رنگ کا ویلوٹ کا انتہائی خوبصورت لباس زیب تن کر رکھا تھا، اس کے سلکی بال اس کی پشت پہ سیک فرنچ باٹ کی قید میں جھول رہے تھے گلابی رنگ کے ہی سکیچرز اس کی اچھی فیشن سینس کے بھر پور عماز تھے مجھے اسے اس نک سک حلیے میں مسکراتے چہرے کے ساتھ دیکھ کر بہت اچھا لگا، اس کی ہسٹری، بلڈ پریشر، پلس، دل کی دھڑکن، وزن اور چیک اپ کے بعد جب میں نے اسے ضرورت کے مطابق ادویات بھی لکھ دیں تو جس چیز نے مجھے حیرانیوں کے دشت میں ہچکولے کھانے کے لیے چھوڑا بھی اور بہت زیادہ پریشانی میں بھی مبتلا کر دیا وہ اس کا ایک ایسا سوال تھا جو آج کل ایک نیا ٹرینڈ بن کر ہر کس و ناکس کے لیے اشد ضروری ہو چکا ہے، تھوڑا اپنے حواسوں پہ قابو پاییے میں وہ سوال آپ سب کے سامنے ہی رکھنے والی ہوں اور مجھے امید ہے کہ آپ سب اپنی اپنی سمجھ کے مطابق مجھے اس سوال کے جواب سے آگاہ ضرور کریں گے.
ان محترمہ جن کا نام نیل آب تھا نے مجھ سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحبہ اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں Gluthioneکے انجکشنز لگوا لوں یاپھر کیپسول کھا لوں تاکہ میرا ہو نے والا بچہ گورے رنگ کا ہو؟؟؟؟ ؟
میں کبھی اس حسن بے پروا کو دیکھوں اور کبھی اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوے نسخے کو، مجھے برا تو بہت لگا مگر میں نے تحمل سے پوچھا ایسا آپ سے کس نے کہا بولی میری بیوٹی پارلر والی نے تو یقین رکھیے جب تک ہمارے سالار یہ دایییاں اور بیوٹی پارلرز پہ بیٹھ کر انٹ شنٹ حرکات و سکنات کے نام پہ خواتین کو نیلا پیلا کرنے والی یہ نیم خواندہ خواتین رہیں گی ہم ایسی ہی اونگیاں بونگیاں مارتے رہیں گے اور اپنا جی بھر کے نقصان کرتے رہیں گے ارے رنگ گورا ہو یا کالا عطاے ربی ہے، عطاے ربی پہ قانع رہییے اور نیم حکم خطرہ جان قسم کے جہلا سے سو فٹ پرے رہیے پہلے دایییاں نامی چڑیلیں نارمل ڈلیوری کے نام پہ بہت سی خواتین کو آن جہانی کروا گییں.
لادے زور
لادے زور. لادے زور
کسی پہاڑے کی طرح پڑھتی ہوی دایییاں یہ بھول ہی گییں کہ دردیں دلوا کر نارمل ڈلیوری کروانا کوی بڑا کارنامہ نہیں ہے، مریضہ اور بچے کی جان بچانا اور مریضہ کو ڈلیوری کی پیچیدگیوں سے بچانا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے اب دردیں دلوا دلوا کر اگر ماں کے پیٹ سے ایک مرا ہوا بچہ نکال کر گھر والوں کے حوالے کر دیا جاے یا پھر نارمل ڈلیوری کے بعد Third degree perineal tear کے ساتھ مریضہ کو گھر بھیج دیا جاے جس میں مریضہ کے پیشاب اور پاخانے کی جگہ ایک ہی ہو جاتی ہے تو لعنت ایسی نارمل ڈلیوری پر، غور فرمائیے گا بڑا آپریشن بڑی ریسرچ اور کءی خواتین کی دردزہ لیتے ہوے جانیں گنوانے کے بعد اختراع کیا گیا تھا جس سے زچہ اور بچہ دونوں کی جان بچانے میں خاطرخواہ کامیابی ہوی اب یہ مریضوں کے لیے اشد ضروری ہے کہ وہ بچے کی پیدائش کے لیے کسی مستند ڈاکٹر اور ہسپتال سے رجوع کریں ناکہ ان عطای ڈاکٹرز سے جو سجی دکھا کر کھبی مارنے میں سند یافتہ ہی نہیں انتہائی ماہر بھی ہیں اور رہ گءی بات رنگ چٹا کرنے والے ٹیکوں کی تو وہ رنگ گورا کرنے والی کریم کی طرح پوری قوم کے حواسوں پہ چھاے ہوے ہیں، ان سے پرہیز بھی اشد ضروری ہے اور حاملہ خواتین کو تو ویسے بھی اپنے حمل کے دوران ماسوائے چند ایک ملٹی وٹامنز کے تقریباً تمام ہی ادویات سے پرہیز کرنا ہوتا ہے کجا کہ حاملہ خواتین، بچوں کے رنگ گورے کرنے کے لیے سفید ہونے والے کیپسول کھانے شروع کر دیں جن کا سواے نقصان کے اور کوی نتیجہ نہیں. خدارا عقل و شعور کے در کھلے رکھیے اور معاشرے میں پھیلے ہوے ان چھو منتروں اور جادو کی چھڑیوں سے بچ کے رہیے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply