عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھو میاں اخبار کی خبر پڑھ کر مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے کہنے لگے ، سب قیامت کی نشانیاں ہیں یہ سب قیامت کی نشانیاں ہیں ۔ ہم نے کہا حضور ، کچھ ہمارے بھی گوش گزار کریں کہ کون سی خبر پڑھ کر جناب یوں مغموم و ملول نظر آ رہے ہیں ، تاکہ ہم بھی قیامت کی وہ نشانی دیکھ سکیں جس نشانی کو دیکھ کر یوں کف افسوس مَلا جا رہا ہے ۔ بدھو میاں نے فوراً اخبار ہمارے سامنے کرتے ہوئے کہا ، جی آپ بھی پڑھ لیں کہیں محروم نہ رہ جائیں ۔ ہم نے اخبار میں مطلوبہ خبر دیکھی ، خبر کے مطابق بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قتل کی ایک بھیانک واردات کا پولیس نے اس وقت ڈراپ سین کر دیا ،جب ایک 14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کے قتل کے الزام میں اُس لڑکی کے ہی والد اور ماموں کو گرفتار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ملزمان نے لڑکی کے سوشل میڈیا پر متعدد ویڈیوز پوسٹ کرنے کی وجہ سے اِس انتہائی اقدام کے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ قتل کا یہ واقعہ 27 جنوری کی شب سوا گیارہ بجے کوئٹہ میں واقع بلوچی سٹریٹ کے مقام پر پیش آیا تھا ، جس کی ابتدائی ایف آئی آر ہلاک ہونے والی لڑکی کے والد ہی کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کروائی گئی تھی ۔ لڑکی کے والد خود بھی امریکی شہریت کے حامل ہیں ، اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ چند روز قبل ہی امریکہ سے پاکستان آئے تھے ۔ پولیس نے کمال مستعدی اور مہارت سے اس واردات کی تفتیش کرتے ہوئے بہت جلد اس مشکوک واقعے کے اصل حقائق سے پردہ چاک کر دیا ۔ بدھو میاں یہ دیکھتے ہوئے کہ ہم پوری خبر پڑھ چکے ہیں کہنے لگے ہے نا قیامت کی نشانی ؟ ، ہم نے کہا بدھو میاں ایسے تو بہت سے واقعات آج کل تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں ، جہاں غیرت کے نام پر ایسا انتہائی قدم اٹھانے سے دریغ نہیں کیا جاتا ، اور چونکہ ان جرائم کو غیرت کا نام دے دیا جاتا ہے اس لئے معاشرہ ان غیرت کے نام پر ہوئے جرائم پر ہمیشہ سے دو رائے میں عموماً تقسیم ہو جاتا ہے ، جبکہ قانون کی حکمرانی والے ممالک میں کسی فردِ واحد کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ پھر ہمارے ملک میں ایسے جرائم کے مرتکب ملزم قانون کے کچھ سقم کا سہارا لے کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے اس تازہ جرم پر بھی عملدرآمد کے لئے امریکہ کے بجائے پاکستان کا انتخاب کیا گیا تاکہ قانونی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچنے کی تدبیر ہو سکے ۔ ہم نے بدھو میاں سے مزید کہا کہ آپ کے علم میں ہے کیسے انگلستان میں چند ماہ پہلے پاکستانی نژاد بچی کے قتل پر والدین کو سخت ترین سزائیں دی گئی ہیں تاکہ مستقبل میں یہ جرم دوبارہ نہ ہو ۔ اب خود سوچئے یہ واقعات تو عام ہو رہے ہیں اور آپ اتنی جلدی قیامت کی نشانیوں پر پہنچ رہے ہیں ۔ بدھو میاں کہنے لگے یہی تو افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں انسانی جان کی قیمت بھی بس چند لمحات کی خبر تک رہ گئی ہے اور یہ بے حسی بھی قیامت کی نشانی ہی ہے ۔ اتنی بے حسی ہے کہ سرسری انداز میں خبر پڑھی اور دوبارہ زندگی کے جھمیلوں میں مصروف ہو گئے ۔ نہ قتل پر افسوس ہوا ، نہ عوامل پر غور کیا ، نہ حکومتوں پر زور دیا ، ایسے جیسے قتل کی خبر نہ ہو ، بس کوئی عام سی واردات ہو گئی ہو ۔ ہم نے کہا کہہ تو آپ درست رہے ہیں اب عوام قتل پر بھی ایسے ردعمل دیتے ہیں جیسے کوئی بہت عام سی خبر ہو ۔ بدھو میاں کہنے لگے یہ صرف ایک قتل نہیں ہے ، یہ تحمل و برداشت کا قتل ہے ، معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کی طرف اشارہ ہے ، معاشرے کی رگوں میں سرایت کرتے زہر کے اثرات کی ہلکی سی جھلک ہے ، جس پر ابھی غور نہ کیا گیا تو یہ معاشرے کو موت کی طرف گھسیٹ کر لے جائے گا ۔ اس خبر کا صرف ایک پہلو نہیں ہے بلکہ اس میں کافی عوامل نظر آ رہے ہیں جس میں عدم برداشت، بڑھتی ہوئی بے حیائی، حرام پیسے کی فراوانی بھی شامل ہیں ۔ ہم نے کہا یہ تو دورِ جدید کا تحفہ ہے اس پر کیا کِیا جا سکتا ہے ۔ بدھو میاں کہنے لگے آپ شائد اخبارات سے دور ہیں اس سوشل میڈیا کے خطرات کو بھانپتے ہوئے بہت سے ممالک اس پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں یا پھر بچوں کی حد تک روکنے کی قرارداد منظور کر رہے ہیں ، جن میں امریکہ اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں ۔ جب وہ ممالک پابندیاں لاگو کر سکتے ہیں تو ہم کیوں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ خاموش تماشائی بنا تماشا دیکھنے میں کیوں مگن ہے ۔یہ تو ہر فرد پر فرض ہے کہ وہ ایک اسلامی معاشرے میں اس بڑھتے ہوئے فحاشی کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ حکومت ہو یا اساتذہ کرام ، دینی حلقے ہوں یا دنیاوی تنظیمیں سب کو اس طرف خصوصی توجہ دیتے ہوئے کسی جامع حکمت عملی کو مرتب کرنا چاہئیے تاکہ اس بیماری کو ہمارے معاشرے سے دور کیا جائے جو کوڑھ بن کر معاشرے کو مفلوج کرتی جا رہی ہے ۔ پیسے کی چکا چوند نے نوجوانوں کی آنکھیں تو چندھیا ہی دی ہیں مگر اس میں بزرگوں کی بھی شمولیت یہ پیغام ہے کہ کس طرح یہ سوشل میڈیا معاشرے کے اخلاق کا جنازہ نکال رہا ہے ۔ حلال حرام کی تمیز بھلائی جا رہی ہے ، جس کو روکنے کے لئے مساجد ، مدرسوں ، اسکولوں اور معاشرے میں موجود ہر ہر فرد پر یہ فرض لاگو ہوتا ہے کہ اب حلال اور حرام پر کھل کر بات کی جائے اور حرام کے اس پیسے پر معاشرے کی اقدار پر پڑتے برے اثرات کی نشاندہی کی جائے ۔ ہم نے کہا یہ تو بالکل درست ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا جن پوری طرح بوتل سے باہر آکر ناچ رہا ہے اور ہم صرف تماشائی بنے اپنی ہی تباہی کا ناچ دیکھنے میں مصروف ہیں۔ قارئین آپ بھی سوچئیے یہ واقعی بدھو میاں کے کہنے کے مطابق قیامت کی نشانی تو نہیں ، وہ قیامت جو ہماری نئی نسل کو بگاڑنے اور ہمارے معاشرے سے تحمل و بردباری کو لوٹنے آ رہی ہے ۔
Leave a Reply