از قلم: تفشالا سرور چھینہ
خموش اے دل!، بھری محفل میں چِلّانا نہیں اچھّا
ادب پہلا قرینہ ہے محبّت کے قرینوں میں
بُرا سمجھوں انھیں، مجھ سے تو ایسا ہو نہیں سکتا
کہ میں خود بھی تو ہوں اقبالؔ اپنے نُکتہ چینوں میں
ناجانے کیوں ہم نے محبت کو صرف چند رویوں اور کہانیوں تک محدود کر دیا ہے۔ خاص کر یہاں برصغیر میں اسے کچھ ایسا بنا دیا ہے کہ اپنے کسی بڑے کے سامنے ہم سے یہ لفظ بولا ہی نہیں جاتا۔ یہ تو ہر جذبے میں سب اعلی اور اہم درجہ ہے۔ لیکن جو مجھے ابھی کہنا ہے وہ کچھ اور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم بحیثیت مسلمان بہت جذب سے کہتے ہیں کہ ہمیں آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے۔ ہاں میں مانتی ہوں محبت ہے لیکن اس محبت کے لیے ہم نے آج تک کیا کیا؟ یہ سوال میرا سب سے پہلے خود سے ہوتا ہے۔ غار میں پھنسے تین آدمیوں کا واقعہ تو ہم سب نے سن رکھا ہے۔لیکن اگر ہم میں سے کوئی سن کی جگہ ہوتا تو کیا ہم کہہ سکتے کہ اللّٰہ تعالیٰ یہ ایک کام ہے ایسا جو میں نے صرف اور صرف آپ کی رضا کے لیے کیا ہے؟
محبت صرف نام لیے لینے سے تو نہیں ہو جاتی۔ اسے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اور ہمارے پاس ثبوت کے نام پر کچھ بھی نہیں۔ وہ اتنی عظیم ہستی جن سے اللّٰہ تعالیٰ کو محبت ہے۔ جن کے لیے یہ رنگ بکھیرے ہیں کیا ان کی محبت اتنی چھوٹی ہونی چاہیے کہ بس کہہ دیا ہمیں آپ سے پیار ہے اور بات ختم؟ کیا ان کا بار بار ہمارے لیے رونا ، گڑگڑانا ، دعائیں کرنا اور پھر وہ چند لفظ یا رب امتی ہماری محبت کے ساتھ تولنا تو کیا سوچے بھی جا سکتے ہیں۔ محبت کرنے والے تو اس دنیا کے باسی لگتے ہی نہیں۔
کچھ دن پہلے چاچو لوگوں نے باہر زمینوں پر ایک نیا ملازم رکھا۔ ریٹائرڈ فوجی ہے لیکن عیسائی۔ تو بابا لوگ گھر آ کر بتا رہے تھے کہ اس دن کہیں سے کھجوریں اور آب زم زم آیا تو انھوں نے وہ کھجوریں اسے بھی دیں۔ سب نے کھجوریں کھا کر گھٹلیاں پھینک دیں لیکن اس نے انھیں اٹھایا اور اوپر کہیں رکھ دیا کہ یہ تو مدینہ پاک سے آئی ہیں۔ یہ بات سنتے شرمندگی سی محسوس ہونے لگی۔ وہ تو عیسائی ہے نا بھی یہ کرتا تو کیا تھا؟
میں یہ نہیں کہتی کہ یہ کوئی محبت کا ثبوت ہے یا پھر یہ سوچا جائے کہ اگر اتنا احترام ہے تو مسلمان کیوں نہیں ہو جاتا۔ عقیدہ تو پیدا ہوتے ہی ہمارے ذہن میں ڈال دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے یہ تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن اقبال کا یہ شعر ٹھک سے دل کو لگا۔ کس خوبصورتی سے کہا ہے نا انھوں نے ادب ہے پہلا قرینہ محبت کے قرینوں میں۔
ان کے نام پر نظروں کا جھک جانا۔ لبوں کا درود کے لیے ہلنے لگنا۔ اور گناہ کی جانب بڑھتے یا رب امتی کو سوچ کر پیچھے ہٹ جانا ہی تو محبت ہے۔ اور محبت اللّٰہ تعالیٰ سے ہو یا اس کے محبوب سے۔ تقاضا رضا یار میں خود کو ڈھا لینے کا۔ ہی کرتی ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران
آیت نمبر 31
ترجمہ:
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔
Leave a Reply