rki.news
تحریر: عشاء ساجد
میں نے دیکھا ہے کہ عورت کو محبت، شہرت دولت وغیرہ بہت پسند ہوتی ہے۔
ظاہر سی بات ہے۔۔۔۔
کیوں کیا نہیں ہونی چاہیئے؟
ہونی چاہیے۔۔۔
تمہیں کیا چیز فیسینیٹ(Fascinat) کرتی ہے؟
“اعتبار” جواب بر جستہ آیا تھا
“اعتبار” ؟ دھیمی سے ہنسی کے ساتھ سوال اٹھا، اعتبار کیسے؟
کیا کسی کے لیے اعتبار بھی کسی دلفریب خواب کا سا ہو سکتا ہے؟
ہاں بلکل ہو سکتا ہے، بلکہ ہے۔
تمہیں پتا ہے بیٹوں کی غلط باتوں پر جلد اعتبار کر لیا جاتا ہے لیکن عورت اگر عمر رسیدہ بھی ہو جائے تو کبھی کبھی بے اعتبار ہی رہتی ہے۔
اور اس کی یہ بے اعتباری ہی اسکے قتلِ عام کا سبب ہے۔
جانتی ہو مرد کی نام نہاد غیرت اور عورت کی بے اعتباری کا گہرا تعلق ہے۔
ہم نے مردوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے دیے گئے حقوق کے ساتھ ساتھ بہت سے خود ساختہ حقوق بھی دے رکھے ہیں جن میں سے ایک ” غیرت” ہے۔
ہمارے مردوں کا غیرت سے اتنا کوئی گہرا تعلق ہے کہ معاشرے کی ساری غیرت پر انہی کا حق ہے۔عورت کا کردار ماپنے کے لیے لوگوں نے کتنے پیمانے بنا رکھے ہیں، عورت کا لباس اسکی آواز ،عورت کے ہاتھ پاؤں شکل و صورت، عورت کے ہاتھ کی بنی گول روٹی اسکے ہاتھ کے پکے کھانے کا نمک، اسکا خاندان اسکی فیملی کے معاشی حالات، اسکی تعلیم ،مستقبل اور پتہ نہیں کیا کیا۔
مرد کے کردار کو ماپنے کا کیا پیمانہ ہے بھلا؟
اسکی غیرت؟
نام نہاد غیرت جو صرف عورت کے معاملے میں جاگتی ہے
کیا غیرت کا تعلق صرف عورت سے ہے؟
یا پھر غیرت صرف مردوں کے لیے مختص ہے؟
وجہ چاہے جو بھی ہو غیرت کے نام پر عورت ہی کیوں مرتی ہے؟
کیا اس معاشرے کے مردوں نے عورت کو اپنی غیرت کا ہتھیار نہیں بنا لیا؟
یا پھر ہم بیٹوں کی پرورش کرتے ہوئے خود سے ہی غیرت کا عنصر ان میں زیادہ دیکھنا چاہتے ہیں ؟
یعنی اس معاشرے کے لیے آج بھی صرف عورت ہی بے غیرت ہے؟ ساری کی ساری غیرت تو مرد لے گئے۔
آپ خود سوچیں ہم اتنے ترقی یافتہ دور میں داخل ہو چکے ہیں لیکن آج بھی ہماری عورتیں غیرت کے نام پر مار دی جاتی ہیں، وہ غیرت چاہے کسی کمزور مرد کی ہو یا پھر کسی بے غیرت مرد کی لیکن وہ عورت کی موت کا باعث بنتی ہے۔
سال 2025 کے پہلے چار مہینوں میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں 116 خواتین اپنے مردوں کی غیرت کے نظر ہو گئیں، یعنی آپکی غیرت اتنی بھیانک تھی کے 116 زندگیاں کھا گئی۔
اللّٰہ تعالیٰ نے مردوں کو حاکم بنایا ہے عورتوں پر لیکن ظالم، جابر اور غاصب یہ خود بن گئے ہیں، حقوق صرف بیٹوں کے نہیں ہیں بیٹیوں کے بھی ہیں آپ غلطیاں چاہے بیٹوں کی معاف کریں یا بیٹیوں کی اللّٰہ تعالیٰ نے تو حقوق کسی کے بھی معاف نہیں کیے.
عورت اتنی ارزاں نہیں ہے اللّٰہ تعالیٰ نے اسکے بڑے حقوق بیان کیے ہیں، انسانیت اور آدمیت کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق تو نہیں ہے بلکہ یہ فرق ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں، ورنہ عورت کا خون اتنا سستا تو نہیں ہے یہ نام نہاد مرد اسی عورت سے جنم لے رہے ہیں۔
کبھی کبھی تو سوچتی ہوں وہ لوگ جو بیٹیوں کے نصیب سے خوفزدہ ہوتے تھے اب بیٹوں کی پیدائش پر بھی اللّٰہ تعالیٰ سے التجا کیا کریں انہیں کسی جانور صفت سے مت نوازا جائے۔ آمین
Leave a Reply