تازہ ترین / Latest
  Tuesday, October 22nd 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

“تلخ حقائق”

Articles , / Tuesday, April 30th, 2024

کالم نگار: سیدہ نزہت ایوب
اسلام آباد

جیسے ہی اپریل کی 23، 24 ،25 تاریخ کی آواز کانوں میں پڑنے لگتی ہے ۔
ہمارا خیال فٹ سے یکم مئی کی طرف چلا جاتا ہے ۔
گھر کے ممبران ایک دوسرے سے یکم مئی (مزدور ڈے) کی چھٹی کے بارے میں پوچھنے لگتے ہیں۔
پھر حساب لگایا جانے لگتا ہے ،کہ کہیں یکم مئی ہفتہ وار چھٹی یعنی اتوار والے دن تو نہیں آ رہی ۔
یہاں تک کہ کچھ افراد انگلیوں کی پوروں پر دن گننے لگتے ہیں، جمعہ کو آئے تو جہاں ہفتہ اتوار کی چھٹی ہوتی ہے وہاں ایک ساتھ تین چھٹیاں اکٹھی اور جہاں صرف اتوار کی چھٹی ہو وہاں کے ملازمین کی دلی دعاؤں کا مرکز یہی ہوتا ہے کہ خدایا گورنمنٹ ہفتے کی بھی چھٹی کر دے۔
دعا قبول ہو جائے وارے نیارے ورنہ دلی بددعاؤں کا مرکز حکومت ۔۔۔۔۔۔
یہ تو تھا ہماری عادات اور چھٹی کے بارے مختصر سا تبصرہ ۔۔۔۔۔۔۔
میری تحریر کا اصل موضوع ہے مزدور ڈے۔۔۔۔
یکم مئی مزدور ڈے مزدوروں کا عالمی دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دن تمام اخبارات مزدور ڈے کی پکار بن جاتے ہیں۔ اس میں مختلف ٹی وی چینلز بھی اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔
اپنے اپنے پلیٹ فارم سے مزدور اور ان کے مسائل و گزارشات کی نمائندگی کی جاتی ہے ۔
کالم لکھے جاتے ہیں۔
اخبارات و رسائل میں کم و بیش ہر تحریر ہی مزدور ڈے کے حوالے سے براجمان ہوتی ہے۔
بہت سی تصاویر بھی اخباروں کی زینت بنی ہوتی ہیں، جن میں عورتیں ،بوڑھے، بچے انتہائی محنت طلب مزدوری کرتے دکھائے گئے ہوتے ہیں۔
ان میں کچھ یوں غریبوں کی دلجوئی اور ڈھارس کی گئی ہوتی ہے، کہ من کے بن میں دکھ و کرب کی ایک چنگھاری سلگ اٹھتی ہے ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اکثر عوام خود کو انتہائی بے کس و مجبور و مظلوم سمجھنے لگتی ہے ۔
جن کے ساتھ دل سوز ظلم و جبر کیا جا رہا ہو۔
یہ ظلم، غریب مظلوم، بے کس عوام کے ساتھ کرکون رہا ہے۔۔۔۔ حکومتی نمائندگان افواجِ پاکستان ۔۔۔۔۔۔
مانا کے دور جدید ہے۔۔۔
مانا کے آزادیء رائے کا حق بھی با اختیار ہے۔
مانا کہ ہم بہت تعلیم یافتہ ہیں۔ مانا کے لفظوں کے سینوں میں بے قراری کی چنگھاریاں سلگنے لگی ہیں ۔۔۔۔
مانا یہ بھی کہ قلم بے باک ہوئے۔
پر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ 70 سال سے ہم حفاظت پر مامور اور ملکی عہدے داران پر ہی انگلی اٹھائے رکھیں۔۔۔۔
(اور رنگ برنگے مارچوں کی بنیاد رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں) اپنی ذات و عادات پر نظر ہی نہ کریں ۔
ہمارے گھروں میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔
اپنے اپنے گھر کی چار دیواری میں اپنے اپنے خاندان میں اپنی اپنی ذات میں کبھی بھی ہم نے جھانکنے کا سوچا ہی نہیں ۔
حالانکہ ہمارے گھروں میں ظلم بھی ہوتا ہے۔
کمزور کو اور کمزور کیا جاتا ہے۔
کون سافتنہ ہے جو ہمارے گھروں کی زینت نہ ہو۔۔۔۔
حقدار کو حق نہیں دیا جاتا دوسرے کا حق سینہ تان کر کھا یا جاتا ہے۔
وطن عزیز میں ایسے گھرانے بھی پائے جاتے ہیں جو لالچ و ہوس میں اتنا گر جاتے ہیں پھر کیا کیا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔
پھر جانوں پر قاتلانہ حملے بھی کئے جاتے ہیں۔
بچ گیا تو اس کی اپنی قسمت ورنہ حق ملے نہ ملے جنازے کو کندھا ضرور ملے گا ۔
مظلوم مرا کے خس کم جہاں پاک ۔۔۔۔۔۔۔
رات گئی سو بات گئی۔۔۔۔۔
بات ہی تو نہیں گئی۔۔۔ بات ہی کو تو جانے مت دیں۔۔۔۔
سوچنا چاہیے اگر دور بے باکی کا آ ہی گیا ہے۔۔۔۔
تو پھر کیسی جھجھک ،کیسی شرم ساری ،کیسی لالچ ،کیسا نفس، کیسی ہوس اور کیسا ڈر پھر نڈر بنیں۔۔۔۔۔ اپنے اپنے سوئے ضمیر کو جگا لیں ۔۔۔۔۔
ہم 70 سال سے ایک ہی روش پر چل رہے ہیں۔
تبدیلی آنی چاہیے۔
بہت کچھ بدلتا جا رہا ہے۔
ہم بھی خود کو بدلیں ۔
اپنے سوئے ضمیر کو جگائیں اور اسے آزادی دیں ۔
بولنے کی آزادی تاکہ ہمارا ضمیر ہمیں گریبان سے پکڑ کر ہم سے ہماری ایک ایک کوتاہی کا حساب لے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International