rki.news
ایک تنقیدی مطالعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواز ساجد نواز
جدید پنجابی غزل کی جڑیں کلاسیکی روایت میں پیوست ہیں، لیکن اس کی شاخیں آج کے دور کے تقاضوں اور فکری سوالوں کی طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ وارث شاہ، بلھے شاہ، شاہ حسین اور سلطان باہو کی شاعری میں جو عشق، روحانیت اور سماجی شعور موجود تھا، وہی عناصر جدید غزل کے لیے بنیاد بنے۔ تاہم آج کے عہد میں یہ غزل صرف صوفیانہ اور عشقیہ تجربات تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے فرد کی تنہائی، وجودی کرب، ہجرت اور سماجی ناہمواری کو بھی اپنے اظہار میں شامل کیا ہے۔ یوں جدید پنجابی غزل روایت اور جدت کے سنگم پر کھڑی ایک تخلیقی کڑی بن گئی ہے۔
جدید پنجابی غزل کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ بلھے شاہ نے جس طرح ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کی تھی، ویسے ہی جدید شعرا اپنے عہد کی ناانصافیوں کو غزل کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر شفقت تنویر مرزا کا یہ شعر جدید انسان کی بے بسی کی تصویر پیش کرتا ہے:
“سانوں دھرتی رول گئی اے، سانوں موسم کھا گئے نیں
ساڈے نالوں وڈے دکھڑے ساڈے بچے پا گئے نیں”
یہ شعر ظاہر کرتا ہے کہ غزل محض عشق کی واردات نہیں بلکہ اجتماعی دکھ اور معاشرتی شکستگی کا آئینہ بھی ہے۔
زبان اور اسلوب کے لحاظ سے بھی جدید پنجابی غزل نے ایک نئی سمت اختیار کی ہے۔ شاہ حسین کے ماہیوں کی سادگی اور بلھے شاہ کی عوامی زبان کو آج کے شعرا نے اپنے لہجے میں ڈھال کر نئی تازگی پیدا کی ہے۔
پنجابی زبان کی سادگی کے ساتھ داخلی کرب کی شدت جھلکتی ہے، جو قاری کو براہِ راست اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔
فنی سطح پر جدید پنجابی غزل نے روایت اور جدت کو ساتھ ساتھ چلایا ہے۔ قافیہ، ردیف اور بحر کی روایتی خوبصورتی کو برقرار رکھتے ہوئے آزاد علامتی اظہار اور عصری تمثیلی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر
یہ نہ صرف ایک داخلی کیفیت بیان کرتا ہے بلکہ جدید زندگی کے ٹوٹے ہوئے خوابوں اور راستوں کی علامت بھی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو جدید پنجابی غزل ماضی کی روحانی و عشقیہ روایت اور حال کے وجودی و سماجی مسائل کا حسین امتزاج ہے۔ کلاسیکی شعرا کی فکری وراثت اور جدید شعرا کی علامتی و عصری زبان نے اسے ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں یہ صرف خطے کی نہیں بلکہ عالمی ادب کی بھی نمائندہ بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید پنجابی غزل اپنی روایت کی جڑوں سے جڑی رہ کر بھی نئی نسل کی ترجمان ہے اور مستقبل کی ادبی سمت متعین کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
Leave a Reply