rki.news
پچھلے تین گھنٹوں سے بوا ہاون دستے سے رات کو بھگوی ہوی چنے کی دال کو کوٹ کوٹ کر پیتل کے پتیلے میں نکالے جا رہی تھیں،ثروت منہ جھکاے کچی مٹی کے فرش پہ بانسی جھاڑو کے تنکے سے آڑھی ترچھی لکیریں بناتی تھی اور مٹاتی تھی، سردیوں میں ایک تو دن بھی چھوٹے اور اوپر سے کاموں کی نہ ختم ہونے والی لمبی فہرست، کیا کریں اور کیا نہ کریں، سمجھ سے بالاتر تھا، مفتن صبح سے جھاڑو لگاتی پھرتی تھی، جھاڑو پھرنے کی آوازیں کچے مٹی کے فرش پہ کچھ عجب سی بھن بھناھٹ چھوڑ رہی تھیں،
جس سے ماحول میں بے ہنگم. آوازوں کے ملے جلے شور نے خاصا اودھم مچا رکھا تھا، بوا نے آخری پور کے پس جانے پہ دونوں ہاتھ کمر پہ رکھے رکھے ہی ثریا کو لمبی آواز لگای، اے ثریا آ جا دال پس گءی ہے اب آ کر حلوہ بھون دو، ثریا جو دوپٹے کو سنجاف لگا رہی تھی، کام کو وہیں ادھورا چھوڑ کر ہوای چپلیں پیروں میں اڑیستی حلوے کی بھنای میں لگ گءی، دیسی گھی اور چنے کی دال کی بھینی بھینی خوشبو سارے میں پھیل گءی تھی، مفتن اب سارے گھر کی صفائی کے بعد پکتے ہوے حلوے کے پاس ہی ٹانگیں پسار کے بیٹھی ہوی تھی، بار بار اپنے سر کو اپنے ہاتھوں سے دباتی اور ٹھنڈی آہیں بھرتی، مفتن ایک عرصے سے درد شقیقہ کی مریضہ تھی، دونوں بیٹے شادی کے بعد اپنے اپنے گھروں کے ہو چکے تھے، شوہر پچھلے سال مزدوری کرتے ہوئے تیسری منزل سے گر کر موقع پر ہی جان کی بازی ہار چکا تھا، اب رہ گءی دکھیاری اور بیچاری مفتن تو اس کے نصیبوں میں دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے گھروں میں جھاڑو دینے کے سوا کوی دوسرا کام تھا ہی نہیں، تو مفتن کو بھلے درد سر ہوتا یہ نہ ہوتا کام اس کے لیے سانسوں کے تسلسل کو قایم رکھنے کے لیے اشد ضروری تھا. بوا گھر کی پرانی اور وفادار ملازمہ تھی، جس کی جوانی اور بڑھاپا دونوں ہی اس گھر میں گزر گیے تھے، ثریا بوا کی پوتی تھی جس کی ماں اپنے کسی عاشق کے ساتھ عرصہ ہوا بھاگ چکی تھی اور ننھی ثریا کی ذمہ داری بھی اب بوا سمیت مالکوں نے سنبھال رکھی تھی، گھر میں نواب صاحب اور بیگم صاحبہ کے ساتھ ان کے دو بیٹے تھے جو پڑھای کے بعد ولایت ہی میں نوکری پیشہ تھے، کھلے پیسے سے اہل خانہ مزے کی زندگی گزار رہے تھے، اہل خانہ کے ساتھ ساتھ پانچ نوکر بھی اپنی دال روٹی کا آسرا کر ہی لیتے تھے، بڑی بیگم صاحبہ کی ٹانگ پچھلے چھ سال سے وضو کرتے ہوئے ایسی سلپ ہوی کہ پھر بیگم صاحبہ اپنے پیروں پہ نہ چل پاییںوہ تب سے بستر پہ ہی بوا اور بہووں کے رحم و کرم پہ تھیں جو پہنا دیا، پہن لیا، جو کھلا دیا، کھا لیا، ساری عمر ایک دنیا پہ حکمرانی کرنے والی اس وقت بے رحم اور ظالم دنیا کے رحم و کرم پہ تھی. ریشم و اطلس پہننے والی اب گھسے پٹے ملبوسات میں بھی شاکر تھی،دودہ ملای اور حلوے کھوے کھانے والی اب ملازمین کی جوٹھن کھانے پہ مجبور تھی، ایک بہو بیوٹیشن اور دوسری ڈریس ڈیزائنر دونوں کو سر کھجانے کی بھی فرصت نہ تھی تو وہ بستر پہ سالوں سے بیمار ساس کی تیمارداری کیا خاک کرتیں اور چوبیس گھنٹے گھر میں رہنے والے ملازمین ہی در حقیقت اس گھر کے مالک تھے کھانے پینے پہ بوا اور ثریا کا ہولڈ تھا، بڑی بیگم صاحبہ کو نہلانے دھلانے اور پیمپر لگانے کے بعد اور گھر کے تمام افراد کو ناشتے کروانے کے بعد وہ اپنے اپنے رانجھے راضی کرنے میں جت جاتیں، ثریا کو کپڑے سینے کا جنون تھا اور بوا کو نت نیے پکوان بنانے کا، آج بوا کے سر پہ دال کاحلوہ بنانے کی دھن سوار تھی اور دونوں خواتین اس مشن کی تکمیل کے لیے رات ہی سے سر گرم تھیں، دال کا حلوہ لش پش تیار تھا گری، بادام اور کشمش کاجو سے سجا ہوا حلوہ جس کی سوندھی سوندھی خوشبو بار بار بڑی بیگم صاحبہ، جو کہ پچھلے چھ سال سے صرف بستر کی ہو کر رہ چکی تھیں اور ان کے گھر اور چولہے چوکی پہ اب ملازمین کی حکومت تھی صرف ملازمین کی ،اور اس چھ سال کے طویل عرصے میں بیگم صاحبہ کے ساتھ اہل خانہ اور ملازمین نے اتنی بے شمار اور بے تحاشا زیادتیاں کی تھیں کہ وہ پتھر کی بے حس مورت بن چکی تھیں. جن کے ذایقے اور خواہشات سب دم توڑ چکے تھے وہ اپنے ہی گھر میں اپنے ہی ٹکروں پہ پلنے والے ملازمین کے جبر اور لعن طعن کا اتنی مرتبہ شکار ہوی تھیں کہ اب تو انھیں یاد بھی نہ تھا کہ کتنی بار؟
عرصہ ہی ہوا کہ بیگم صاحبہ نے کسی ذایقے کی خواہش کرنا چھوڑ دیا تھا انھیں معلوم تھا کہ ان کے میاں پرویز صاحب اپنے کمرے سے باہر نکلیں گے نہیں کیوں کہ بوا اور آپا ثریا انھیں ہر اچھی شے کمرے ہی میں پہنچا کے اپنا نام شہیدوں کی فہرست میں لکھوا لینے کے فن میں طاق تھیں اور صاحب کی بلا سے بیمار، بستر تک محدود ہو جانے والی گھر کی مالکن کل کی بجاے بھلے ابھی مر جاے. اور ثریا اور بوا ایک معذور، مظلوم اور بیمار عورت جو کہ گھر کی مالکن بھی تھی کے احساسات و جذبات سے بری طرح سے کھیل رہی تھیں. خیر جو بیت جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا، بیگم صاحبہ اتنے عرصے تک جوٹھا موٹھا کھا کے کھانوں کے نام اور ذایقوں کی اشتہا سے تقریباً ناواقف ہو چکی تھیں، مگر نجانے آج کیا ہوا کہ انھیں چنے کی دال کے حلوے کی سوندھی سوندھی خوشبو نے تقریباً پاگل ہی کر دیا اور انھوں نے بیٹھی ہوی آواز میں کبھی مفتن اور کبھی ثریا کو آوازیں دینا شروع کر دیں مگر ناہجاز ملازمین، نمک حرام ملازمین مالکان کی کمای سے بنایا گیا دیسی گھی کا دال کاحلوہ مالکان کے آنے سے پہلے ہضم کرنے کے چکروں میں مصروف کار تھے، انھیں بیمار بیگم کی نحیف و نزار آواز بھلا کیوں سنای دیتی؟
دیسی گھی کا دال کا حلوہ الایچی والی دودھ پتی کے ساتھ مزے لے لے کر ثریا، مفتن، بوا اور ثروت نے کھایا، کڑاہی سے لے کر تمام برتن صاف ستھرے کر کے شیلفوں میں سجا دییے گیے، اور شام کو بہووں کے آنے سے ذرا پہلے کل کا پکا ہوا باسی سالن آلو مٹر گرم کر کے روٹیوں کے ساتھ ٹیبل پہ چن دیا، سارے گھر والے کھانا کھا کے اپنے اپنے کمروں میں چلے گیے تو بیگم صاحبہ کو کھانا کھلانے کے لیے سٹیل کی چھنی میں آلو مٹر اور روٹی لے کر ثریا، بیگم صاحبہ کی وفادار اور تابع دار ملازمہ، مٹک مٹک کر روانہ ہوی، بیگم صاحبہ نے اسے اشارے سے گھگھیای ہوی آواز میں دال کا حلوہ لانے کی غلطی کر دی، ثریا راز افشا ہونے کے ڈر سے وہ جرم کر بیٹھی جس کی سزا اسے روز حشر میں ملنی تھی اس نے قریب المرگ مالکن کے منہ پہ تکیہ رکھ کے چھ ماہ سے بستر پہ پڑی ہوی بیمار اور ضعیف بیگم صاحبہ کی ساری مشکلات آسان کر دیں. اور سارے گھر میں شور مچانے لگی کہ بیگم صاحبہ کا انتقال ہو گیا، جب جنازہ رخصت ہونے لگا تو سب سے لمبے وین ثریا کے تھے اور اہل محلہ اور بیگم صاحبہ کی بہووں کی گواہی، عرش کے بھی کان پھاڑتی تھی کہ بیچاری ثریا نے بیگم صاحبہ کی پورے چھ سال تک بڑی دل جمعی سے خدمت کی تھی.
Leave a Reply