Today ePaper
Rahbar e Kisan International

جگتدل شمس اردوجونیئر ہائی اسکول کے قیام کا ماہِ تمام*

Articles , / Sunday, October 19th, 2025

rki.news

خلش امتیازی
از ” احمد وکیل علیمی
جگتدل 24پرگنہ کے خورشید عالم(خلش امتیازی) کے نام سے نسلِ نو شاید واقف نہ ہو، لیکن اردو ادب کے قدیم ادباء ، شعراء نیز درس و تدریس سے وابستہ اربابِ وفا خورشید ماسٹر سے بخوبی واقف ہیں۔معروف صحافی و شاعر جناب انجم عظیم آبادی، وفا سکندر پوری ، پروفیسر شہناز نبی، استانی بلقیس بانو، ڈاکٹر شاہد اختر، ف۔س۔ اعجاز، وکیل انور چاپدانوی، ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی، عظیم انصاری ،خواجہ احمد حسین اور عبد السلام عاصم جیسے معروف صحافی و شاعر خلش امتیازی کی ادبی اور تدریسی صلاحیتوں سے کما حقہ واقف ہیں۔ رفتگاں میں خاحسن مفتاحی، پروفیسر ظفر اگانوی، سالک لکھنوی، ارمان شام نگری، ڈاکٹر ارشد الاعظمی، مولانا جمیل الٰہ آبادی، عبدالوہاب محسنی، قیصر شمیم، حامی گورکھپوری، پروفیسر یوسف تقی، وحید عرشی ، علقمہ شبلی، ثقلین حیدر، حبیب ہاشمی، منور رانا، جوگا سنگھ انور، شوکت عظیم، یونس اثر ، نور اقبال ، قیوم بدراور صابر اقبال جیسی ادبی شخصیات سے خلش امتیازی کی ادبی و درسی صلاحیت پوشیدہ نہیں تھی۔ خلش امتیازی کی علمیت اور ذہانت کی قدر کرنے کی بجائے ان کے ساتھ فریب کاری کی جائے اور ان کو اسکول سے رخصت کردیا جائے تو آرزوؤں کا خون ہونے والا شخص کانکی نارہ سے جگتدل تک روتے ہوئے گھر جاکر متا کے آنچل میں جب پھوُٹ پھُوٹ کر رونے لگتا ہے تو ماں اپنا دامن اُٹھا کر دعا گو ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے اِس سے بھی بڑا مرتبہ عطا کرے گا۔ قِصّہ یہ ہے کہ کانکی نارہ حمایت الغربا ہائی اسکول میں جناب خلش اعزازی طور پر درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ لیکن اچانک ایک دن اسکول انتظامیہ نے اُن کی جگہ کسی دوسرے ٹیچر کی تقرری کرلی۔ کانکی نارہ حمایت الغربا ہائی اسکول کا سدا سے یہ المیہ اور بد قسمتی رہی ہے کہ قابل اور غیر معمولی قابلیت کے حامل شخص کی جگہ دوسرے شخص کی تقرری کو ترجیح دی گئی ہے۔ خلش امتیازی کبیدہ خاطر ضرور تھے لیکن خالص تعلیم یافتہ شخص زیادہ دنوں تک حصارِ مایوسی میں نہیں رہتا۔ انہوں نے اپنی کبیدگی اور آزردگی کو اپنے وجود پر حاوی ہونے کا موقع نہیں دیا۔ چند دِنوں کے بعد روزنامہ اخبارِمشرق میں انگلش عبارت کے اردو ترجمے کے مشغلے سے منسلک ہوگئے۔ وہاں دِل نہیں لگا تو نئی راہ کی جستجو میں لگ گئے۔
کسی نئی مصروفیت کی تلاش میں تھے کہ ہُگلی ادبی سوسائٹی میں ان کی بحالی کی خبر مشتہر ہونے لگی۔ اخبارِمشرق کے مدیر جناب احسن مفتاحی نے خلش امتیازی صاحب کی درسی و ادبی قابلیت کو چشمِ خود سے دیکھ لیا تھا، پرکھ لیا تھا۔ اُن دنوں میں اخبارِ مشرق سے منسلک تھا۔ مجھ کو اپنے چیمبر میں بُلا پوچھنے لگے کہ خلش امتیازی تمہارے علاقے میں رہتے ہیں۔ میں نے جوابا” کہا کہ، نہیں وہ میرے علاقے میں نہیں بلکہ ناچیز کو اُن کے علاقے میں رہنے کا شرف حاصل ہے۔ پھر میں نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے کہ بہت ذہین شخص ہے۔ ہمارے اخبار میں انگلش سےاردو میں ترجمہ کرنے کے کام پر مامور تھے اس قدر فصاحت کے ساتھ ترجمہ کرنے والے عنقا ہیں کہ ترجمہ نہیں کوئی مقالہ لکھا گیا ہو۔ لیکن چند دنوں سے نہیں آرہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ وہ میرے نانیہال باقر علی سردار نامی محلّے میں بود و باش اختیار کرتے ہیں۔ جب پتہ چلا کہ خلش امتیازی کی تقرری انگس ادبی سوسائٹی میں ہوگئی ہے تو انہوں نے بھی خلش صاحب کی بحالی کی سفارش میں تاخیر نہیں کی۔ تقرری کا شرف حاصل ہوتے ہی خلش امتیازی کی قسمت کی شمعِ کشتہ ماہِ تاباں بن کر زبان و ادب کا مبلّغ بن گئی۔ حمایت الغربا ہائی اسکول میں ان کی تقرری نہ ہونے کے نقصان پر خوش ہونے والے اب اُن کو کامیاب گزار لوگوں کے شمار دانوں میں رکھتے ہیں۔
زندگی شاداں وفرحاں گزر نے لگی۔ لیکن وہ اپنی نگاہ میں ایک خواب لے کر جی رہے تھے۔ وہ اپنے جگتدل علاقے میں ایک ہائی اسکول قائم کرنے کی فکر میں تھے۔ جگتدل کی لڑکیوں کو کانکی نارہ اردو گرلس ہائی اسکول میں آمد و رفت کے دوران پیش آنے والی مسافرت کی صعوبت ان کو بہت مضطرب رکھتی تھی۔ جگتدل میں اسکول کی کمی کو انہوں نے شدّت سے محسوس کرلیا تھا۔ اللہ نے ان کی نظریں باقر محلّہ میں واقع جگتدل شمس اردو پرائمری اسکول کی جانب مرکوز کردیا۔ ان کی متانت آمیزی اور سریع الفہمی نے تاڑ لیا کہ اسی پرائمری اسکول کو جونیئر ہائی اسکول بنا کر اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کی جا سکتی ہے۔ یہ نادر خیال آتے ہی ان کی دوربین نگاہ باقر محلے کے محمد ایوب انصاری پر بڑی۔ وہ ہائی اسکول میں تعلیم دینے کے اہل نظر آئے کیوں کہ محمد ایوب انصاری خلش امتیازی کے حصارِ مذاقِ سخن میں رہنے والے بھی تھے۔ خلش صاحب نے جب اُن سے اپنے دیرینہ آرزو کا ذکر کیا تو ایوب صاحب کی باچھیں کھِل گئیں اور وہ خلش امتیازی کی تیز بینی کی سراہنا کی اور پرائمری کو جونیئر ہائی اسکول بنانے کی تجویز اس لیے بھی دِل میں اُتر گئی کہ ایوب صاحب ٹیچر کے criteria پر کھرے اُتر رہے تھے۔ اس خیال و تجویز کے ساتھ جب خلش اور ایوب صاحبان نے جگتدل شمس اردو پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر صابر صاحب سے ملاقات کی تو صابر صاحب کو نہ صرف تجویز پسند آئی بلکہ انہوں نے بھی خود کو اسٹاف پینل میں شامل کرنے کی شرط رکھ دی۔ اس طرح پرائمری اسکول کے کئی ٹیچر امیدواروں کی فہرست میں تھے۔ لیکن جونیئر ہائی اسکول کے لیے تعلیمی لیاقت کی میزان پر صرف قمر پیامی آئے۔ اس طرح پرائمری اسکول میں ہی جونیئر اسکول کے کلاسیس کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ طلباء ، طالبات کی کمی اس لیے نہیں ہوئی کہ پرائمری سے کامیاب ہونے والے اسٹوڈنٹس کے داخلے نے کلاسیس میں Roll Strength کا مسئلہ پیدا ہونے نہیں دیا۔ خلش ماسٹر نے ادبی سوسائٹی سے ابھی رہائی کا پروانہ نہیں لیا تھا۔ مارننگ اسکول ہونے کے سبب خلش صاحب اسکول میں اپنا کلاس لے کر پھر ادبی سوسائٹی میں درس و تدریس کی ذمہ داری نباہ رہے تھے۔ جگتدل شمس اردو جونیئر ہاسکول کے لیے اساتذہ کے پینل میں Pure Science ٹیچر کی کمی تھی۔ خلش ماسٹر نے نیابازار(کانکی نارہ) سے زاہد اقبال چمن کو بُلا کر جوائن کرانے کے بعد ٹیچر پینل کی خانہ پُری کی۔ جونیئر ہائی اسکول کی منظوری کا کا قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ستیہ نارائن نامی شخص کو اسکول کو منظوری دلانے کا خاصہ تجربہ تھا۔ لہٰذا خلش اور ایوب صاحبان نے ستیہ نرائن کی مدد سےاسکول کا ٹیچر پینل مکمل کرکے ان کے حوالے کردیا۔ ستیہ نرائن جی پینل کے کاغذات ڈی آئی آفس میں جمع کرکے اس کی Receipt copy انہوں نے متوقع ہیڈ ماسٹر جناب خلش کے سپرد کردی۔ خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا۔ منظوری ملنے کے انتظار کی کشا کشی کے بعد اسکولوں کو اپ گریڈ کرنے کا سرکاری اعلان اخبارات میں شائع ہونے کاسلسلہ جاری ہوا۔ لیکن اُس فہرست میں جگتدل شمس جونیئر ہائی اسکول کا نام نہیں دیکھ کر ایک امیدوار محمد ایوب انصاری مضطرب ہو اُٹھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کی آنکھیں نمناک ہونے والی ہیں۔ ایوب صاحب نے عالمِ مایوسی میں جب یہ غم فزا خبر اسکول سکریٹری جناب شیخ محمد الیاس اور خلش امتیازی سر کو سُنائی کہ دیگر اسکولوں کے ساتھ کھردہ مکتب کو منظوری مل گئی لیکن جگتدل شمس اسکول کا نام منظوری ملنے والی فہرست میں نہیں ہے تو سب کے چہروں پر فکر کی لکیریں گہری ہوگئیں۔ غم انگیز خبر کے سبب ایوب صاحب کا چہرہ پہلے ہی بے رونق ہوچکا تھا۔ باہمی صلاح و مشورے کے بعد خلش اور ایوب صاحب نے کھردہ اسکول کے سکریٹری انور صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے اُس وقت کے وزیرِ محنت محمد امین صاحب سے ملاقات کرنے کا مشورہ دیا۔ واپسی میں ٹیٹا گڑھ اسٹیشن پر فری انڈیا جونیئر ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر محمد مستقیم نظر آئے۔ انہوں نے سرگزشت سُننے کے بعد ہوڑہ ہاٹ ہائی مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر مشتاق صاحب سے ملنے کی صلاح دی۔ دوسرے روز ہی خلش اور ایوب صاحبان مشتاق صاحب سے ملنے کے لیے ان کے اسکول ، ہوڑہ پہنچ گئے۔ تمام باتیں سننے کے بعد انہوں نے بورڈ کے صدر کو فون لگایا۔ انہوں نے جب درخواست جمع کیے جانے کی رسید طلب کیا تو خلش اور ایوب صاحبان ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ، جیسے دِن میں تارے نظر آگئے ہوں۔ جمع کی جانے والی رسید دکھانے سے قاصر نظر آئے۔ اُسی وقت مشتاق صاحب نے بورڈ کے صدر سے بات کرکے جب دونوں صاحبان کو بتا یا کہ جگتدل شمس اردو جونیئر ہائی اسکول کا نام منظوری والی فہرست میں ہے ہی نہیں، تو ان کے اوسان خطا ہوگئے۔ خلش اور ایوب صاحبان مشتاق صاحب کے سامنے مبہوت نظر آئے۔ دونوں اس وقت تک پُر امید تھے کہ اُن کے اسکول کے لیے مشتاق صاحب جیسی بااثر شخصیت کوشاں ہے۔ مشتاق صحبان نے دونوں شریمان کو بورڈ کے صدر دفتر کے سامنے بُلایا۔مشتاق صاحب بھی اس اسکول کی منظوری کو ایک چیلنج بنا چکے تھے۔ ویسے بھی اُس زمانے میں اسکولی مسائل کو حل کرنے میں جناب مشتاق کو کمال حاصل تھا۔ اس لیے اسکول کے ہر مسئلے کو لے کر ان کی خدمت میں لوگ آنکھوں کے بل جاتے تھے۔ مشتاق صاحب شدت کے ساتھ صدرِ بورڈ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ غایت الامر صدرِ بورڈ سے تقریباً نصف گھنٹے گفت و شنید کے بعد پارٹی سفارش کی بنیاد پر نئے منظور شدہ اسکولوں کی فہرست میں شمس اسکول کے نام کا اندراج ہوگیا۔ مشتاق صاحب نے خلش سر اور ایوب صاحب کو اپنے گھر پر بُلایا۔ اس روز سکریٹری شیخ محمد الیاس صاحب کے ساتھ دونوں شریمان مشتاق صاحب کے پہلوئے اخلاص میں پہنچ گئے۔ مشتاق صاحب نے سولہ نکاتی کاغذات قلم بند کرائے اور ان نکات کے ساتھ چند ضروری کاغذات بھی تیار کرنے کی صلاح دی۔ جب کاغذات کی تیّاری کرکے مشتاق صاحب کے سپرد کیا گیا تو انہوں نے تمام کاغذات صدر بورڈ کے پاس جمع کردیا۔ جمع کرکےجب آفس سے باہر آئے تو متوکّلانہ منتظر دونوں صاحبان کے چہرے پر عرقِ متجسسانہ اور متفکرانہ دیکھ کر محبّتانہ اور معتمدانہ لہجے میں مُژدہ سنایا کہ آپ کا شمس اسکول اب منظوری پانے والی فہرست میں ہے اور عنقریب منظوری کا پروانہ موصول ہوجائےگا، ان شاءاللہ۔
یہ مژدہ سماعت تک آتے ہی خلش سراور ایوب صاحب کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ ہاری ہوئی بازی کے جیت جانے کا جب یقین ہوجائے تو مسرّت کے آنسو میسّر ہوتے ہیں۔ جب شمس اسکول کی منظوری کی خوش خبری عوام الناس تک پہنچی تو تقرری پانے والے کے یہاں ” گھی کا چراغ” جلانے والا سماں نظر آیا۔
بے روزگاروں کے لیے روزگار کی حصولیابی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ ” آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا”۔ زندگی کا سامان کردینے کے بعد مشتاق صاحب کے چہرے پر یا آنکھوں میں تفاخر کی معمولی دمک تک نہیں تھی۔ ابنِ آدم کی عظمت اُسی وقت نظر استحسان اور ممنونیت کے مدارج کا موجب ہوتی ہے جب انسان اخلاق ، مروّت اور اسوہ حسنہ کا راہ رو بنتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔
” عظمت صرف ایک فیصد ودیعت کی جاتی ہے اور 99 فیصد محنت و ریاضت سے ملتی ہے۔ ”
ویسے بھی محمد مشتاق صاحب رفاہِ خلائق کے تعلق سے اہل نظر میں مہربان، مخلص اور انسان دوست کی مثال تھے۔ کسی دانا کا قول ہے۔
” تدبیر کو ہاتھ سے مت چھوڑو اور دور اندیشی کو کام میں لاؤ۔”
مشتاق صاحب کی عادت رہی ہے کہ وہ اپنی کوششوں اور تگ و دو کو دوُر اندیشی کی کشتی میں لے کر سوار رہتے تھے اور ایک نہ ایک دن اُس سفر کو فاتحانہ شکل عطا کر کے ہی دم لیتے تھے۔ مولانا جلال الدین رومی کا قول بھی یاد آرہا ہے کہ
” خدمتِ خلق صرف خوشنودِخدا کے لیے کرو، خلقت کے قبول کرنے سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ ”
غور کیا جائے تو جگتدل شمس اردو جونیئر ہائی اسکول کے قیام کا خواب دیکھنے والے انسان دوست اور خیر خواہِ ملّت جناب خورشید عالم خان(خلش امتیازی) نے جگتدل میں جونیئر ہائی اسکول قائم کرکے جگتدل و قرب و جوار کے لڑکے، لڑکیوں کے لیے ایک ناقابلِ فراموش خدمت انجام دینے کا کام کیا ہے۔ اس بنیاد میرامنصفانہ ذہن خلش سر کو
” ظلِّ سرسیّد” کہہ کر شاگردی کا حق ادا کرنے کی سعیءِ مشکور کرتا رہتا ہے۔ مثل” اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا” سے چشم پوشی بھی نہیں کی جا سکتی کہ اسکول کے قیام کے خواب کو شرمندۀ تعبیر کرنے میں ہر چندمحمد ایوب انصاری ، الیاس ماسٹر ، قمر پیامی(قمرالدین ماسٹر) بھی پیش پیش رہے لیکن اسکول کے بانی کی حیثیت سے اُن کو خراج ِ عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ نہیں کیا جا سکا ہے جو کسی نہ کسی طور پر اخلاق کی کمی کو درشاتا ہے جو اسلاف کی خدمات سے چشم پوشی کے مترادف بھی ہے۔
کاغذی طور پر 1980اور عملی طور پر1982سے اسکول میں درس و تدریس کاسلسلہ شروع ہوا۔ 1987میں پانچویں اور چھٹی جماعت کی منظوری ملی۔ یکم جنوری 1988 میں ساتویں اور آٹھویں جماعت کی منظوری ملی۔بعد ازاں اسٹاف کی تقرری 1988میں ہوئی۔
حصارِ فراموش کاری سے نکل کر دیکھا جائے تو شمس اردو جونیئر ہائی کے قیام نے باقاعدہ ہائی اسکول کی منظوری کی راہ ہموار کی۔
اللہ کا عظیم احسان و فضل ہے کہ
فراخئِ رزق کا سلسلہ بن گیا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International