تازہ ترین / Latest
  Wednesday, December 25th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

حقیقتِ قربانیِ ”بہ خوشنودیِ کرمِ رب

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Monday, June 24th, 2024

ڈاکٹر عبید اقبال عاصم

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
۵۴۴۱ھ
نحمدہٗ و نصلی علٰی رسولہ الکریم۔ امابعد
صدر محترم، معزز حاضرین!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرات گرامی! میرے لئے یہ بات انتہائی سعادت و خوش بختی کی ہے کہ قطر کی ایک علمی مجلس میں جہاں ”گلہائے رنگارنگ“ کی زینت سجی ہوئی ہے مجھ جیسے کم علم بلکہ ہیچ مداں کو ایک ایسے موضوع پر بولنے کا حکم دیا گیا ہے جو ماہِ ذی الحجہ کے تین دنوں (۰۱، ۱۱، ۲۱ ذی الحجہ) میں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اعمال میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے،یعنی قربانی۔ الحمد للہ دنیا کے تمام خطوں میں پائے جانے والے مسلمان ان تین دنوں کو اس کام کے لئے مخصوص رکھتے ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس عظیم یادگار کو (جب انہوں نے اللہ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے اپنے انتہاء سے زیادہ لاڈلے، مطیع و فرماں بردار فرزند کے گلے پر چھری پھیرنے کے عمل کو انجام دیا تھا)، قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کے صاحبِ حیثیت افراد کے لئے لازمی قرار دے دیا۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب کا یہ عمل اتنا زیادہ پسند آیا کہ اس نے صابر و شاکر باپ کے جذبہ کو قبولیت سے نوازتے ہوئے اطاعت گزار لختِ جگر کی جگہ جنت سے دنبہ بھیج دیا اور پھر اس سنتِ ابراہیمیؑ کو زندہ جاوید بنا دیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ان محبوب ترین بندوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ”قلبِ سلیم“ عطا فرمایا تھا اور اسی کا خاصہ تھا کہ وہ زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی چیزوں کی حقیقت و ماہیت، قدرت کی کاری گری، کائنات میں پھیلے ہوئے فطرتی مشاہدات پر غور کرتے ہوئے اس بات کا پختہ یقین دل میں لئے ہوئے تھا کہ ان کی قوم جن جھوٹے معبودوں کی پرستش میں مبتلا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ وہ تو یہاں تک پہنچ گئے کہ ان ”خود تراشیدہ خداؤں“ کا تو کیا؟ آسمان پر نظر آنے والے ستارے، چاند اور سورج بھی ایک وقت متعینہ پر غائب ہوجانے کے باعث اس کا حق نہیں رکھتے کہ ان میں سے کسی کو بھی معبودیت کا درجہ دیاجائے۔ معبود تو یقینی طور پر وہ ذات ہے جو کائنات کے اس نظامِ شمسی و قمری کو، نجوم و کواکب اور افلاک و ارضیات اور ان میں موجود تمام عجائبات کو اپنے حکم کے مطابق چلا رہی ہے۔ قدرت کے ان مشاہدات کا ادراک کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس پورے نظام کو اگر ایک سے زیادہ ہستیاں چلاتیں تو یہ کائنات کبھی کی ریزہ ریزہ ہوجاتی۔ لہٰذا اندازہ ہوتا ہے کہ عبادت کے لائق وہی ذات ہے جس کی حکمرانی نہ صرف یہ کہ نظر آنے والی دنیا کی تمام اشیاء پر بلکہ نظروں سے اوجھل رہنے والی اُن چیزوں پر بھی ہے جن تک انسانی بصارت و بصیرت کی رسائی نہیں ہے۔”صنم پر ست باپ“ کے زیر تربیت ”بت شکن“ بیٹے کے اس ا علان نے کہ ”ہر چیز کا خالق و مالک اللہ ہے اور عبادت و پرستش کے لائق صرف اور صرف اسی کی ذات ہے“ دنیائے مشرکین میں کھلبلی مچا دی اور پھر انہوں نے اس جوان کو اپنی راہ پر لانے کے لئے جو جتن کئے وہ پیار و محبت کی فضا سے نکل کر سماجی بائیکاٹ تک اور پھر ظلم و زیادتی کی راہوں سے گزر کر خود کو خدائی کے حصار میں محصور سمجھنے والے بادشاہ ”نمرود“کے دربار تک پہنچے، اس نے حسب روایت تمام شیطانی حربوں کو آزمایا، بالآخر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نذر آتش کرکے ان کے سینے میں لگی ہوئی توحید کی آگ کو سرد کرنے کے منصوبہ پر عمل کیا گیا لیکن جب ؎”بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق“ نے ان کی ساری تدبیروں کو اکارت کردیا تو ”عقل“ ”لب بام“ ہونے والے ”تماشا“ میں محو ہو کر رہ گئی ”تدبیروں“ کے الٹ پھیر نے ان عقل دشمنوں کو اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ وہ دعوت ابراہیمی کے معترف ہوجاتے اور اس عشق پر غور کرتے جس کو برپا کرنے کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنا تن، من، دھن سب کچھ قربان کرنے پر تیار تھے۔دین حنیف کے اس عظیم ترین انسان نے جوانی اسی آرزو میں صرف کردی کہ کسی بھی طرح اُن کی بات کو سن کر لوگ راہِ راست پر آجائیں لیکن ”صُمٌّ بکمٌ عمیٌ“ کی تصویر بنے ان باطل پرستوں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ ابلیس کے مکر سے باہر نکل کر زندگی کے ان حقائق پر غور کریں جن کی دعوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ دی جارہی تھی۔اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قدم قدم پر بلاخیز آزمائشوں سے گذرنا پڑا اور وہ ہر جگہ ثابت قدمی کے ساتھ توحید کے پرچم کوبلند کئے رہے۔اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے دوست کی ہر ادا پسند تھی۔ اسی لئے انہیں ”خلیل اللہ“ کے گراں قدر منصب سے سرفراز فرمایا گیا۔ یہ منصب عطا ہوا تو آزمائش کے زاویے بدلنے شروع ہوئے۔ پہلے انہیں کبر سنی میں ایک ہونہار فرزند کی ولادت کی بشارت دی گئی۔ ابھی وہ طفل شیرخوار ہی تھا کہ بوڑھے باپ کو اذنِ الٰہی پہنچا کہ شریک حیات کو معصوم کم سن بچہ کے ساتھ اُس ”وادی غیر ذی زرع“ میں چھوڑ دو جہاں ریت کے علاوہ دور دور تک کہیں کوئی آبادی کا نشان نہیں۔ زندگی کے کوئی آثار نہیں، پانی کا وجود نہیں، سر پر آسمان کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہیں۔ حکم ربی کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے اللہ کے اس اطاعت گزار بندے نے کسی قسم کی بھی لیت و لعل کئے بنا اللہ کے اس حکم کی تعمیل کی۔ راستہ میں ابلیس نے حضرت ابراہیم کو بہکانا چاہا لیکن اس کی ایک نہیں چلی، شیطان رجیم کابس جب ابراہیم پر نہیں چلا تو مردود نے حضرت ہاجرہ پر زور آزمائی کی لیکن خلیل اللہ کی صحبت میں رہی ہوئی اس خاتونِ آہن نے اُس ملعون کی کسی بات پر کان نہیں دھرا اور تمام آزمائشوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا، یہاں تک کہ پانی کی تلاش میں ادھر سے ادھر دوڑنے والی ماں کی فطری محبت نے بھی اللہ کی نافرمانی نہیں ہونے دی، اس حالت میں بھی وہ رب کریم کا شکر ادا کرتی رہیں، اللہ تعالیٰ نے ماں کی ممتا کی لاج اس طرح رکھی کہ شیرخوار بچہ کی ایڑیوں سے رگڑنے والے ریت سے پانی کا ایسا چشمہ نکال کر اُس وقت سے لے کر آج تک بلکہ قیامت تک آنے والی انسانی دنیا کو یہ باور کرادیا کہ ؎

”ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہئ عالم دوامِ ما“
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا سلسلہ ابھی بھی نہیں تھما بلکہ بقول شاعر:
”ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں“
آزمائشی سفر اگلی سمت کی طرف رواں دواں ہوگیا۔ ان کی محبتوں کا مرکز، نورِ چشم و بصر، لخت قلب و جگر، قرۃ العیون جب عنفوانِ شباب میں د اخل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنی اس محبوب شئے کو ہمارے لئے قربان کردو، صبر و ثابت قدمی کے پیکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس حکم کو ماننے میں بھی کوئی تردد نہیں کیا یہاں تک کہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کواللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا علم ہوا تو وہ بجائے اس کے کہ اس پر رنجیدہ یا غمزدہ ہوتے، اس موقع پر باپ کی ہمت بندھائی، باپ کی فطری محبت قربانی کی راہ میں حائل نہ ہوجائے اس کے تدارک کے لئے آنکھوں پر پٹی باندھنے کی تجویز رکھی۔ راستہ میں بہ شکل ”بزرگ و برتر“ ابلیس نے مکر و فریب کے جال پھینکنے چاہے تو ان سے بچتے ہوئے باپ کو رب کی طرف سے دئیے گئے حکم کو مکمل کرنے کی درخواست کی۔گردنِ فرزند پر رکھی جانے والی باپ کی چھری کند نہ پڑجائے اس کی بھی تیاری مکمل کرلی گئی اور جب اللہ تعالیٰ نے اس چھری کو دنبہ کی گردن پر چلا کر ندائے غیبی سے ”قَد صدّقتَ الرؤیا“ کی صدا بلند کردی تو اس تاریخ کو اس عمل کو دہرانے کے لئے راہِ راست پر چلنے والوں کو تاقیامت ہدایت کردی گئی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزندِ دلبند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس قربانی کو قرآن مجید کی اصطلاح میں ”ذبحِ عظیم“ سے تعبیر کیا گیا۔اور فی الحقیقت وہ ”ذبیح فردِ عظیم“ بن گئے۔ عیسوی سن کے حساب سے بین القوسین کے اعداد ۴۲۰۲ ہوتے ہیں جس میں یہ سطور قلم بند کی جارہی ہیں۔قربانی کا یہ عمل بظاہر ایک جانور کی گردن پر چھری پھیرنے تک محدود دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے پسِ پشت جو جذبہ کارفرما ہے وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے مکمل سپرد کردینا ہے، خواہ اس کے لئے اپنی کسی بھی عزیز شئے کو قربان کرنا پڑے۔ اسی لئے سورہئ انعام میں واضح کردیا گیا ہے کہ ”قُلْ اِنَّ صَلاَتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن، لاَ شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوّلُ الْمُسْلِمِیْن“ اورپھر یہ بھی کہ مقصد ریا کاری و نمود ونمائش نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف دلوں میں جاگزیں ہونا اور مستقل اس تصور کو ذہن میں رکھنا کہ اللہ رب العزت کی ذات وہ ذات ہے جوہمہ وقت ہر جگہ اپنی پوری صفات کے ساتھ موجود ہے اور وہ ہمارے ہر ہر عمل کو ہر جہت سے دیکھ رہا ہے۔جس جانور کو ہم اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں اس کا گوشت، خون، کھال اور تمام چیزیں ہماری نظروں کے سامنے ہیں، ہم اُن سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ گوشت کی لذت سے محظوظ ہورہے ہیں، اس کی مختلف اقسام سے لطف اندوزی ہورہی ہے، جانوروں کی خرید و فروخت سے معیشت کو مضبوط کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کو تو ان میں سے کوئی بھی چیز نہیں پہنچ رہی ہے، اس کو جو چیز پہنچتی ہے وہ آپ کا جذبہ ہے جو آپ نے رب کریم کی رضا وخوشنودی کی خاطر پیش کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلاَ دِمَاؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ۔ اللہ تعالیٰ کو ان جانوروں کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا لیکن اس کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔یہ تقویٰ (یعنی اللہ کا خوف) ہمیں بہت سی اچھائیوں کو کرنے اور بہت سی برائیوں سے رکنے پر اکساتا ہے۔ بسا اوقات ہم بہت سے اچھے کام محض اس لئے کرتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے اور بہت سے برے کاموں سے اُس کی ناراضگی کے اندیشے سے ڈر کر انجام نہیں دیتے، یہی چیز ”تقویٰ“ ہے اور اسی کا اجر ہے۔’‘’تقویٰ“ کا تقاضا یہ ہے کہ اس عارضی چند روزہ حیاتِ مستعار میں ہمارا جو بھی عمل ہو وہ اس بات کا شاہد ہو کہ ہمارے دل و دماغ میں تقوے کا احساس موجود ہے، اس کی راہ میں سب سے زیادہ جو چیز آڑے آتی ہے وہ نفس امارہ ہے، جس کی کمان ابلیس ملعون کے ہاتھ میں ہے، وہ بے ثبات دنیا کے گناہ آلود کاموں کو بڑے خوبصورت لباسوں میں ملبوس کرکے اس طرح پیش کرتا ہے کہ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے بہکاوے میں آجاتے ہیں۔ ایسے موقع پر ہمیں اسوہئ ابراہیمی کو پیش نظر رکھتے ہوئے نفسانی خواہشات کو قربان کرنا چاہئے۔ یہ مشکل ترین کام ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کی کلید اسی عمل میں ہے۔ نفسانی خواہشات کو ترک کرنے میں ہمیں کبھی دنیا کی فلاح و صلاح کا خیال آتا ہے، کبھی اولاد و مال کی محبت اس میں دیوار بن جاتی ہے، کبھی عہدہ و اقتدار ہمیں آخرت سے غافل ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ ایسے مواقع پر ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانیوں کو پیش نظر رکھ کر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے راہِ راست کا متلاشی رہنا چاہئے خواہ اس کے لئے ہمیں اپنے مال و اسباب، اہل و عیال، مواشی و مکانات، زمین جائیداد، باغات و ارضیات کو قربان کرنا پڑے۔۰۱/تا ۲۱/ذی الحجہ کا یہ عمل ہمیں ہر سال اپنے سبق کا اعادہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس موقع پر ہمیں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم نے گئے ہوئے سال میں جانور کو ذبح کرنے کے بعد سے موجودہ جانوروں کی گردن پر چھری پھیرنے تک کتنی ایسی خواہشات کو روندا جنہیں کرنے پر ہمارا نفسِ امارہ مجبور کر رہا تھا۔ ہم نے کتنے ایسے تعلقات کو پامال کیا جو ہمیں اطاعتِ الٰہی سے روک رہے تھے۔ اللہ کا خوف ہمارے دلوں میں کس حد تک جاگزیں ہوا؟ یہ سب چیزیں اگر ہمارے دل و دماغ میں موجود ہیں اور ہم نے ان پر عمل بھی کیا ہے تو یقینا ہم اس قربانی کے گوشت کا حق ادا کر رہے ہیں اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا، ہم خواہشات کے حصار میں محصور رہ کر تمام معصیتوں کا ارتکاب کرتے رہے تو یہ ”زبان کے زور پر“ ”ہنگامہ آرائی“ ہے جس کا کچھ ”حاصل“ نہیں ہے۔ اس فلسفہ کو سمجھنے کے لئے ”درد آشنا“ دل کی ضرورت ہے، جو احکامِ الٰہی کے سامنے اپنے آپ کو مکمل سپرد کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں محض اپنی رضا کی خاطر ہر بری خواہش کو قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے اور ہماری قربانی کو مقبول فرمائے۔ آمین۔صدر محترم! مجھے احساس ہے کہ میں نے اپنی اس بے ترتیب گفتگو میں موضوع کا حق ادا نہیں کیا لیکن جو کچھ کہنا چاہا اس کی حقیقت کو سمجھنا آپ جیسے دانشوروں کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔ اس کے پیش نظر اپنی گفتگو کو میں نے حقیقت قربانی کے ساتھ ”بہ خوشنودیِ کرمِ رب“ کے عنوان سے معنون کیا ہے جس سے اس مضمون کے لکھے جانے سن ہجری ۵۴۴۱ھ کی تخریج ہوتی ہے۔ اس تحریر کا ایک اور تاریخی عنوان ”حقیقتِ قربانی، قربانیِ اسم“ (یعنی نام و نمود کو قربان کردینا) بھی قرار دیا جاسکتا ہے جس کے اعدادِ ہجری سن کی مطابقت سے ۵۴۴۱ھ ہوتے ہیں، لیکن میں نے ”بہ خوشنودیِ کرم رب“ کو زیادہ مناسب سمجھ کر اس سے معنون کر دیاخواہش تو یہ بھی تھی کہ میں اسے ”ذبح عظیم کا ابدی فلسفہ“کا عنوان دیتا لیکن کاش کہ یہ مضمون ۳۲۰۲ء میں پڑھا گیا ہوتا تو یہ عنوان تاریخی بن جاتا۔ بہرحال آپ کی حسنِ سماعت کے لئے شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھ جیسے بے بضاعت انسان کو بنا کسی دخل اندازی کے بولنے کا موقع عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے جزیل عطا فرمائے اور اس مجلس کو قبول فرمائے۔ آمین


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International