rki.news
احمد وکیل علیمی
دوردرشن کولکاتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی کی خوشی، کامیابی اور شہرت، یاعزیز و دوست کی اقبال مندی اور بیدار بختی پر ہمارا شیطانی خمیر ہمیں حسد ، اضطراب اور پاگل پن کے اختلاط سے ذہنی انتشار میں مبتلا کردیتا ہے۔ اسی لیے وہ مثل” آنکھوں کے آگے پلکوں کی بُرائی کرنے” کا مرتکب ہوتا ہے۔ پرانے راہ و رسم بھول کر بے مرّوتی پر اُتر آتا ہے۔ ایسا ہی چلن معاشرے میں شروع سے قائم ہے۔ معاملات میں رفاقت کا دم بھرنے نیز خود کومخلص اورپیکرِ ایثار ظاہر کرنے والا بھی مثل ” آنسو ایک نہیں کلیجہ ٹوک ٹوک” کا شکار نظر آتا ہے۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مختلف اسباب سے ایک دوسرے کے خلاف ناراضگی کے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ کوئی آگے بڑھ گیا ہے تو دوسروں میں اس کے خلاف حسد کا جذبہ، کسی کو زیادہ مِل گیا ہے تو اس کے مقابلے میں اپنی محرومی کا احساس، کسی سے شکایت کی کوئی بات ہوجائے تو اس کے خلاف غصہّ اور انتقام وغیرہ۔اس قسم کے جذبات ہماری باہمی ملاقات اور مراسم میں انتہائی عام ہیں اور وہ ہر سماج میں بلکہ ہر گھر اور خاندان میں موجود نظر آتے ہیں۔ مگر عام حالات میں وہ دِلوں کے اندر چھُپے رہتے ہیں۔ لوگوں کی روز مرّہ کی مصروفیات بھی اس کے ابھرنے اور پنپنے میں رُکاوٹ بنی رہتی ہیں لیکن کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آجائے تو یہ جذبات ظاہر ہوجاتے ہیں۔۔
ہمارے مراسم اور اخوّت کے مابین ایسے منفی قسم کے جذبات اور ابتذال آمیز رجحانات کو کچل دینا سماجی ہم آہنگی کے لیے لازمی ہے۔ اس کے برعکس نادانی اور اور ابلہی کا ثبوت دے کر چھُپے ہوئے جذبات کو مشتعل نہ کرنے کے روشن ضمیر ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔
ہماری یہ زندگی ایک مسلّم اور اٹل حقیقت ہے ۔ موجودہ مقابلے کی دنیا میں کوئی معاشرہ حتیٰ کہ ہر خاندان دست و گریباں ہے۔ ایسے حالات میں زندگی کا صرف ایک یہی راز ہے کہ صبر ، فرزانگی اور حکمت کا طریقہ اختیار کرکے دبے ہوئے جذبات کو دبا رہنے دیا جائے، ان کو حتی المقدور بروئے کار آنے سے روکا جائے۔
زندگی کا یہی راز ہے جس کو کسی مفکر نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے ۔۔۔۔۔۔” اس دنیا میں ہر آدمی کے پاس ایک وسیع قبرستان ہونا چاہیے جس میں وہ لوگوں کی تقصیروں اور قصوروں کو دفن کرسکے۔
Leave a Reply