Today ePaper
Rahbar e Kisan International

خواجہ غلام فرید:برصغیر کی صوفی روایت کا درخشان نام

Articles , Snippets , / Monday, November 24th, 2025

rki.news

(25 نومبر یوم ییدائیش پر خصوصی تحریر)

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
خواجہ غلام فرید برصغیر کی صوفی روایت کا ایسا درخشاں نام ہیں جنہوں نے اپنے زمانے میں مذہبی، فکری اور ثقافتی سطح پر جو اثرات چھوڑے وہ آج بھی اتنے ہی تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی شخصیت صرف ایک شاعر یا صوفی تک محدود نہیں تھی، بلکہ وہ جنوبی پنجاب اور سرائیکی وسیب کی اجتماعی پہچان کی علامت بن چکے ہیں۔ ان کا کلام، خاص طور پر کافی، عشقِ حقیقی، انسانی دکھوں اور وسیب کی روحانی فضا کا معتبر حوالہ ہے۔
انیسویں صدی برصغیر کی تاریخ میں شدید سیاسی تبدیلیوں کی صدی تھی۔ پنجاب میں سکھ سلطنت کے زوال اور برطانوی اقتدار کے قیام کے بعد سماجی و معاشرتی ڈھانچے میں نئی کشمکش پیدا ہوئی۔ مذہبی تحریکوں نے نئے رجحانات اختیار کیے اور روحانیت کی طرف لوگوں کی رجوع بڑھی۔ اسی پس منظر میں 1840ء کی دہائی میں چچران شریف میں خواجہ غلام فرید کی پیدائش ہوئی۔ ان کا خاندان سندھ کے معروف سہروردیہ مشائخ سے تھا جو بعد ازاں چشتیت سے وابستہ ہوگیا۔ بچپن میں یتیمی کا داغ اور پھر بڑے بھائی خواجہ فخر الدین کی سرپرستی نے انہیں روحانیت کے ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع دیا۔ بعد ازاں بہاولپور کے نواب صادق محمد خان چہارم کے دربار میں ان کی تعلیم نے انہیں وسیع علمی ورثہ فراہم کیا۔
1875ء میں حج کی ادائیگی کے بعد ان کا چولستان کے صحرا کی طرف طویل چلہ نشینی اختیار کرنا ایک بڑا روحانی موڑ ثابت ہوا۔ اسی ریاضت نے ان کی شاعری کو وہ گہرائی اور سوز دیا جو آج بھی سرائیکی کلام میں اپنی مثال آپ ہے۔
خواجہ فرید کی فکر کی بنیاد قرآن، حدیث، تصوف اور برصغیر کی روایتی وحدت الوجودی فکر پر استوار تھی۔ ان کی شاعری میں ہندی بھکتی تحریک، فارسی روایات، پنجابی سلوک اور سرائیکی فطری ماحول سب کے رنگ ملتے ہیں۔
ان کی شخصیت کے کئی نمایاں پہلو ہیں جن میں سرفہرست عشقِ حقیقی کا تصور ہے۔ ان کے نزدیک عشق ہی حیات کی اصل قوت ہے، جو انسان کو ذات سے کائنات تک لے جاتا ہے۔
محبتِ رسول ﷺ
ان کی کافیوں میں نعتیہ جذبہ ایک سچے درویش کی عقیدت کا اظہار ہے۔
وہ ظلم، ناانصافی اور سماجی تقسیم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔
سرائیکی وسیب کی محبت
روہی (چولستان) ان کی شاعری کا مرکزی استعارہ ہے۔ صحرا، ہوا، میلوں، رنگوں اور خانہ بدوشوں کی زندگی ان کے کلام میں سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔
خواجہ غلام فرید نے سرائیکی، فارسی، اردو، پنجابی، سندھی، پشتو اور ہندی میں لکھا، لیکن ان کی شہرت کا مرکز سرائیکی کافی ہے۔ ان کی اہم تصانیف میں دیوانِ فرید کافی مشہور ہے۔ ان کا سرائیکی کلام، جس کی کافیوں نے زبان و بیان کے نئے در وا کیے۔
مناقبِ محبوبیہ،فارسی نثر، جس میں روحانی نکات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
فوائدِ فریدیہ،مریدین اور صوفی حلقوں کے لیے رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں۔
مسنوی مدنِ عشق، عشق کی روحانی معراج پر مبنی فارسی مثنوی پر مشتمل ہیں۔
خواجہ فرید کی کافی میں چند بنیادی خصوصیات نمایاں ہیں:
اسلوب کی سادگی کے ساتھ ساتھ کلام میں تاثیر بھی ہے۔ الفاظ انتہائی سادہ مگر معنی آفاقی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ اور عام لوگ دونوں ان کی شاعری سے یکساں لطف لیتے ہیں۔
روہی، ہنسلی، اونٹ، صحرا، میلوں کا سفر اور مشکیزہ یہ سب علامات ہیں جو انسان اور خدا کے تعلق کو بیان کرتی ہیں۔
ان۔کی شاعری میں جابجا عشق اور درد کا امتزاج ملتا ہے۔ غلام فرید کی شاعری میں عشق کبھی وصال کی امید ہے، کبھی ہجر کا دریا بن کر سامنے آتا ہے۔
ان کی شاعری میں موسیقیت کے ساتھ ساتھ صوتی حسن بھی ہے۔ ان کی کافیوں میں صوتی تکرار، ردھم اور دھن کا ایسا توازن ہے جو لوک موسیقی کے لیے موزوں ترین ہے۔
ان کے ہاں کائنات کی ہر شے میں ایک ہی حقیقت کا ظہور نظر آتا ہے۔
خواجہ غلام فرید نے 19ویں صدی کے سیاسی انتشار میں روحانیت کا ایسا پیغام دیا جو انسان کو نفرت سے دور کرکے محبت کی طرف بلاتا ہے۔ جب خطے میں معاشرتی بے چینی تھی، انہوں نے وسیب کے لوگوں کو محبت، صبر اور برداشت کا درس دیا۔
ان کی شاعری میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مظالم کے خلاف ہلکی مگر مؤثر مزاحمت بھی ملتی ہے۔ وہ کسی سیاسی تحریک کا حصہ نہیں تھے، لیکن ان کا شعری احتجاج معاشرتی بیداری کا ذریعہ بنتا ہے۔
خواجہ غلام فرید کا اثر آج تین اہم حوالوں سے دیکھا جاتا ہے جن میں سرفہرست سرائیکی زبان اور ثقافت ہے۔ ان کی شاعری نے سرائیکی کو ادبی سطح پر نئی شناخت بخشی۔ آج کا سرائیکی ادب انہی کے قائم کیے ہوئے فنی اصولوں پر کھڑا ہے۔
وہ چشتیت کے عظیم نمائندہ ہیں۔ ان کے مزار پر ہر سال لاکھوں زائرین آتے ہیں، جس سے ان کے روحانی اثر کا اندازہ ہوتا ہے۔
ان کی کافیوں نے لوک موسیقی کو نئی سمت دی۔ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی سے لے کر عبدالستار ٹوانہ، شفقت امانت علی اور صنم ماروی تک بے شمار فنکار ان کی کافیوں کو گاتے ہیں۔
خواجہ غلام فرید کی شخصیت علمی، روحانی اور ادبی لحاظ سے ایک ایسا سنگ میل ہے جو صرف سرائیکی وسیب تک محدود نہیں بلکہ پورے برصغیر کی شناخت ہے۔ ان کا کلام عشق، انسانیت، تغیر اور وقت کے احساس کا ایسا مجموعہ ہے جس نے انہیں اردو، فارسی اور سرائیکی روایت کا لازوال شاعر بنا دیا یے۔
ان کی شاعری صرف مطالعے کا موضوع نہیں بلکہ دل کے سفر کی رہنما کتاب ہے۔ وہ شاعرِ وسیب ہی نہیں بلکہ شاعرِ انسانیت بھی ہیں۔

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International