حریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!زندگی چمک دار موتی کی طرح اسی صورت چمکتی ہے جب ایک محنت اور جدوجہد کی جھلک نمایاں ہو۔اس کائنات کی خوبصورتی کا راز بھی محنت کے دریچوں سے آشکار ہوتا ہے۔بقول شاعر:۔
خون دل و جگر سے ہے سرمایۂ حیات
فطرت لہو ترنگ ہے غافل! نہ جلترنگ
اس خوب صورت شعر کے مفہوم سے ایک عزم اور حوصلے کا اشارہ ملتا ہے۔اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ”ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا“
جو قوم اپنے خون جگر سے اور محنت سے زندگی کے کارہاۓ نمایاں سر انجام پاتی ہے وہی کامرانی کے مرتبہ کی حقدار بھی ہوتی ہے۔بقول شاعر:.
نامی بغیر کوئی مشقت نہیں ہوا
عقیق سو بار کٹا تب نگیں ہوا
اس کے تناظر میں جائزہ لیا جاۓ تو جو قوم اپنے نوجوانوں میں مقاصد کے حصول کے لیے ایک تحریک پیدا کرتی ہے منزل بھی وہی پاتی ہے۔فطرت تو اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نیا زمانہ اور نۓ صبح و شام پیدا کرنے کے لیے قوت فکروعمل سے محنت جاری رکھی جاۓ۔یہ تو حقیقت مسلمہ ہے کہ جو قوم جلترنگ کی رنگینیوں میں محو ہوتی ہے کامیابیوں سے ہمکنار نہیں ہو پاتی اس لیے بزم نشاط سےلطف اندوزی کے بجاۓ محنت اور جدوجہد سے زندہ رہنے کا معمول بنا لیا جاۓ تو اس طرز زندگی کے بہت خوشگوار اثرات سامنے آتے ہیں۔یہی بات تو نوجوان نسل کو باور کروانا ہے کہ بقول شاعر:.
عروج آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام
یہ کہکشاں،یہ ستارے،یہ نیلگوں افلاک
رب کائنات کی عنایات کتنی بے مثال ہیں۔قرآن مجید کی سورۃ الجاثیہ کی آیت نمبر 13کا ترجمہ کتنا اہم ہے”اس اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کر دیا “یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ انسان ایک روز ترقی کی منازل طے کر کے دور تک پہنچ جاۓ گا یہ کائنات اسی غرض کے لیے بنائی گئی ہے کہ انسان اس کی تسخیر کرے“انسان اپنی محنت اور خون جگر سے نئی منزلیں تلاش کر پاتا ہے اور سکون محسوس کرتا ہے۔کائنات کی دلکشی اور خوبصورتی کا راز بھی تو محنت ہے۔جو لوگ محنت کرتے ہیں عظمت کے تاج بھی انہی کے سر پر سجتے ہیں۔اس لیے جو چراغ خون جگر سے جلتے ہیں ان کی روشنی بھی تابناک ہوتی ہے۔زندگی تو نام ہی مسلسل محنت اور کوشش ہے۔اس لیے جو عزت اور مقام انسان کو ملتا ہے وہ محنت سے ملتا ہے۔بزم عیش و نشاط سے نہیں ملتا۔تاریخ کا مطالعہ کریں تو جن اقوام نے فطرت لہو ترنگ ہے کے مقاصد کے اصول کو مدنظر رکھ کر زندگی بسر کی تو وہ کامیاب ہوۓ اور جو جلترنگ کے اشغال میں محو رہے وہ بے نام و نشاں ہوۓ۔ایک زندہ قوم بننے کے لیے محنت بنیادی شرط ہے۔بقول شاعر:.
اور جب بانگِ اذاں کرتی ہے بیدار اسے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر
بدن اس تازہ جہاں کا ہے اس کی کفِ خاک
روح اس تازہ جہاں کی ہے اس کی تعمیر
انسان بنیادی طور پر کامیابی اسی وقت حاصل کر پاتا ہے جب عزائم سینوں میں بیدار ہوں۔ایک تازہ خیال دلوں میں تحریک پیدا کرنے کا موجب ہے۔فرمان رسولﷺ کی اہمیت کس قدر اہم ہے”محنتی خدا کا دوست ہے“ اس کے آئینہ میں کتنی خوبصورتی کی شمع روشن ہے۔عظیم لوگ وہی ہوتے ہیں جو رب کے حضور ایک ہی التجا کرتے ہیں بقول شاعر:۔
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جاۓ
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جاۓ۔۔۔
زندہ قومیں اپنی شاندار روایات برقرار رکھنے کے لیے شمشیر و سناں اول کو ہمیشہ مدنظر رکھتی اور طاؤس و رباب کو پس منظر میں دیکھتی ہیں۔یہ بات بھی تو مسلمہ ہے۔بقول شاعر:۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
بندہ صحرائی کہ مرد کہستانی۔۔۔۔
Leave a Reply