تحریر : احمد ثبات قریشی الہاشمی
جنوری آج میرے دادا مرحوم جناب غلامِ رسول خلیق قریشی مرحوم کی 51 ویں برسی ہے اس مناسبت سے ایک مختصر سا مضمون ان کی حیات پر لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔ایسی شخصیت جو اپنے اندر ایک جامعیت رکھتی ہو اسے چند مختصر الفاظ میں تحریر کرنا بہت مشکل ہے۔ لیکن کوشش کی ہے کہ مختصر الفاظ میں اس شخصیت کے وہ پہلو قلم بند کر پاؤں جن سے قارئین کو نفع میسر آئے
دعا ہے کہ مالکِ ارض و سماء اپنے محبوبِ کریم ﷺ کے صدقے اور وسیلۂِ جلیلہ سے میرے دادا مرحوم سمیت تمام مسلمین مسلمات مؤمنین مؤمنات کی کامل بخشش و مغفرت فرمائے قبر و حشر کی منازل آسان فرماتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین
احباب کی نذر یہ حقیر سی قلمی کاوش
جنوری 1974 کی سرد صبح میں عارضۂِ دل کے باعث اسپتال میں زیرِ علاج ایک شخصیت جن کے چہرے کی لالی نزع کی پیلاہٹ میں چھپ رہی تھی آنکھیں موندھے لیٹے دھیمی آواز میں ذکرِ محبوب کرنے میں مشغول تھے۔ایک چاہنے والے نے کیفیت دیکھی تو حوصلہ دینے کے لیئے کہا کہ “حضرت حوصلہ رکھیں اور دل نہ چھوڑیں” آواز کانوں سے ٹکرائی تو چہرے پر نحیف سا تبسم عود آیا۔بمشکل آنکھیں کھولیں اور اپنے ساتھی کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے گویا ہوئے ” ارے صاحب میں کہاں دل چھوڑ رہا ہوں یہ دل ہی مجھے چھوڑے جا رہا ہے”
الفاظ کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال کرنے والا جس کی گفتگو سننے کے لیئے لوگ جوق در جوق کھنچے آتے تھے،جو لفظوں کی جادوگری سے سخت دلوں کو موم کرنے کا گُر خوب جانتا تھا، شعلہ بیانی ہو یا بذلہ سنجی اس کی آواز کے ردھم کا اثر کانوں سے دلوں تک اترتا ہر سامع محسوس کرتا تھا، اُلفت میں ڈوب کر جب ذکرِ حبیبِ کبریا کرتا تو آواز سجدوں کے نذرانے لے کر سامعین کے دلوں حُب اور خوف کی ملی جلی کیفیت طاری کر دیتی،عشقِ رسول میں دیوانہ وار جب نعتِ نبی صل اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کہتا تو اکابرینِ محفل وجدان میں کھو جاتی، حُبِّ اہلِبیت(علیہم السلام) کا اظہار کرتا تو سامعین مے علی سے اپنے قلوب کی پیاس بجھاتے، ہزاروں کے مجمعے کو اپنی گفتار کی لے پر نچانے کا ہنر جاننے والا بس اتنا کہ پایا کہ “میں دل کو کہاں چھوڑ رہا ہوں یہ دل ہی مجھے چھوڑے جا رہا ہے”۔ کچھ لمحات گزرے اور داعئِ اجل کو لبیک کہنے کا وقت آگیا۔وقت تھم گیا اور اپنے خُلق سے دلوں کو مسخر کرنے والا خلیق قریشی اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ گیا
کون جانتا تھا کہ 14 اگست 1916 کو موضوع لنگیاں خوجے گجرات میں میاں شرف الدین شاہ کے گھر پیدا ہونے والا بچہ جس کا نام غلام رسول رکھا گیا وہ اردو ادب صحافت اور خطابت میں اپنا ایک علیحدہ نام و مقام پائے گا۔ایسا بچہ جس کی پیدائش کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ رحلت فرما گئیں والد میاں شرف الدین شاہ اپنی زوجہ کی وفات کے بعد اداس رہنے لگے تو ان کے ایک محب و عقیدتمند میاں عبدالباری ایڈووکیٹ جو کہ لائلپور (حالیہ فیصل آباد) کے رہائشی تھے انہیں اپنے ساتھ لائلپور لے آئے میاں شرف الدین اپنے صاحبزادے اور دونوں صاحبزادیوں کے ساتھ لائلپور آگئے۔قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا غلام رسول جب پانچ برس کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔میاں عبدالباری نے وفا کی وہ رسم اختیار کی جو خواص کے نصیب میں ہی ہوتی ہے انہوں نے غلام رسول اور ان کی بہنوں کی مکمل سرپرستی کی ذمہ داری اٹھائی اور غلام رسول کی تعلیم پر مکمل توجہ دی غلام رسول نے میٹرک مسلم ہائی اسکول طارق آباد سے پاس کیا اور اسلامیہ کالج لاھور کا رُخ کیا۔حساس طبیعت ہونے کے باعث اپنے خیالات کو لفظوں کا جامہ پہنانا سیکھ گئے اور شاعری و نثر نگاری کا آغاز کیا شاعری میں اپنا تخلص “خلیق” رکھا اور خلیق قریشی کے نام سے جانے جانے لگے۔ دورانِ تعلیم تحریکِ آزادیِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا اور حمید نظامی مرحوم کے قریبی رفقاء میں شمار ہونے لگے۔ بی اے کی تعلیم کے بعد روزنامہ نوائے وقت سے منسلک ہوئے اور آزادی کے پروانے کی مانند اپنے جذبات کو لفظوں کے موتیوں کی مالا سے مزین کرتے رہے۔چند سال لاھور مقیم رہے اور بحیثیت ایڈیٹر روزنامہ نوائے وقت میں اپنی خدمات پیش کیں اس دوران مسلم لیگ میں شمولیت اور تحریکِ آزادیِ پاکستان کے جلسوں میں پیش پیش رہے
اپنی گھریلو ذمہ داریوں کے باعث لاھور کو خیرباد کہا اور لائلپور (فیصل آباد) میں واپسی اختیار کی۔لائلپور آ کر لائلپور اخبار کے مدیر کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کیں۔قائدِ اعظم محمد علی جناح سے شملہ میں جا کر ملاقات کی اور انہیں درخواست کی کہ وہ لائلپور کا دورہ کریں قائد نے ان کی درخواست قبول کی اور 1941 میں تین روزہ دورے پر لائلپور(فیصل آباد ) تشریف لائے اس موقع پر ایک عظیم الشان جلسہ رکھا گیا جس کے اسٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری غلامِ رسول خلیق قریشی نے ادا کیئے اس موقع پر انہوں نے اپنی ایک نظم پڑھی جسے اس دور میں بہت شہرہ حاصل ہوا
ملت کا خضرِ راہ محمد علی جناح
بے تاج بادشاہ محمد علی جناح
جو رُک سکا نہ کُفر کے کوہِ مہیب سے
وہ سیلِ بے پناہ ، محمد علی جناح
قیامِ پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کے کٹھن دنوں میں آنریری ہاؤسنگ مجسٹریٹ کی ذمہ داری نبھائی بعد ازاں ڈسٹرکٹ پبلسٹی آفیسر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیئے۔مزاج میں آزادی تھی اسی باعث سرکاری ملازمت کو خیر باد کہا اور 1949 میں “روزنامہ عوام” کے نام سے اپنے اخبار کا اجراء کیا۔روزنامہ عوام کا خاصہ یہ تھا کہ وہ شہر کے علمی و ادبی افراد کا نہ صرف مسکن بنا بلکہ شہری مسائل کی نشاندہی اور عوام کے حقوق کا ترجمان ثابت ہوا۔شہر کی تمام تر سیاست ثقافت اور سماجی حقوق کی ترجمانی کرنے والا یہ ادارہ عوام کے جذبات و احساسات کا ترجمان ثابت ہوا۔
عشقِ مصطفیٰ صل اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم میں غرق غلامِ رسول خلیق قریشی اپنی نسبت و محبت کا اظہار یوں کرتے ہیں
اتنا بڑا شرف کہ غلامِ رسول ﷺ ہوں
کتنی عظیم ہے مجھے نسبت حضورﷺ سے
بارگاہِ رسالت مآب ﷺ سے جب بلاوا آتا ہے تو مواجہ شریف میں کھڑے بے ساختہ فرماتے ہیں
اَشک بہتے ہوئے رُخسار تک آ پہنچے ہیں
عرض لے کر تری سرکار تک آپہنچے ہیں
رحم اے رحمتِ کونین دُھائی تیری
دستِ تعزیر گنہگار تک آپہنچے ہیں
محبتِ اہلِ بیت ان کے رگ و پے میں سمائی ہوئی تھی اپنی محبت کا اظہار یوں فرماتے ہیں
ہم پہلے مسلماں ہیں نہیں اِس پہ ہمیں ناز
کعبے کے نگہباں ہیں نہیں اِس پہ ہمیں ناز
البتہ ہمیں اُلفتِ شبیر پہ ہے ناز
ہر رتبۂِ اعلیٰ سے فزوں تر ہے یہ اعزاز
مداحِ علی ہیں ہم ہیں قریشِ عربی ہیں
ہم اھلِ وِلا ھاشمی و مطلبی ہیں
مرحوم کا مزاج درویشانہ اور اوصاف حکیمانہ تھے اپنی ذات کے لیئے ہمیشہ خود کو پسِ پشت رکھنا اور اپنے احباب کی تکریم کو ہمیشہ مقدم جاننا ان کی طبیعت کا جُز تھا۔چاہتے تو خود کو مالی و معاشی طور پر بہت ذیادہ مستحکم کر سکتے تھے لیکن ہمیشہ خود کو رزقِ حلال کا متبع رکھا اپنی پوری حیات میں کثیر قلمی مشقت کے باوجود کبھی کوئی کتاب کی اشاعت نہ کر پائے ان کی تین کتابیں ان کے وصال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے محمد ظہیر قریشی(مرحوم) نے شائع کروائیں جن میں نعتیہ مجموعہ “برگِ سدرہ” غزلیات کا مجموعہ “نقشِ کفِ پا” اور نظموں کا مجموعہ “سرِ دوشِ ھوا” شامل ہیں۔
مرحوم کی دو ازواج تھیں جن سے پانچ صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں تھیں۔آپ کے بڑے صاحبزادے محمد ظہیر قریشی(مرحوم) معروف و کہنہ مشق صحافی و سفر نامہ نگار تھے 1997 میں ان وصال ہوا تو فیصل آباد میں مدفن ہوئے۔آپ کے دیگر صاحبزادوں میں افتخار نسیم (مرحوم) جدید دور کے معروف شاعر تھے امریکہ میں مقیم رہے اور وہیں ان کا وصال ہوا۔انجم خلیق لاھور میں مقیم ہیں ادبی حلقوں میں بہت ہی معتبر شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔خرم خلیق اسلام آباد میں مقیم ہیں شاعری میں بہت بلند مقام رکھتے ہیں جبکہ زاہد خلیق امریکہ میں مقیم ہیں۔ صاحبزادیوں میں اعجاز نسرین امریکہ میں مقیم ہیں اور امریکہ کی ادبی تنظیموں سے وابستہ رہنے کے ساتھ افسانہ نگاری میں ایک خاص مقام کی حامل خاتون ہیں آجکل صاحبِ فراش ہیں محترمہ امتیاز حمید (مرحومہ) کا انتقال ہو چکا ہے جبکہ کشور مجید صاحبہ گوجرانولہ میں مقیم ان کا خانوادہ بھی روحانی و ادبی لحاظ سے گوجرانولہ میں معزز شمار ہوتا ہے جبکہ سب سے چھوٹی صاحبزادی بیگم خالد محمود امریکہ میں مقیم ہیں
مرحوم نے تاحیات اپنے دوستوں اور محبت کرنے والوں کے جھرمٹ میں زندگی گزاری اپنے وصال سے چند روز قبل اپنے دوستوں کو یوں مخاطب کیا
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کروگے یارو
تذکرے ہوں گے یہی جب بھی ملوگے یارو
ہم نے رودادِ وفا خوں سے مرتب کی ہے
داستاں پھر نہ کبھی سن سکو گے یارو
عمومی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ صحافت سے وابستہ افراد کو لوگ ان کے سامنے تو تعظیم دیتے ہیں لیکن جونہی وہ ہٹتے ہیں تو اپنے غصے کا اظہار ان پر کرتے ہیں۔حضرت امام احمد ابنِ حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ ہمارے جنازے ہمارے حق پہ ہونے کی دلیل ہوں گے۔کہا جاتا ہے کہ مرحوم کا جنازہ اپنے دور میں شہرِ فیصل آباد کے بڑے جنازوں میں سے ایک تھا مرحوم کا ہی اپنا شعر ان کی نذر کرتا ہوں
لاش کاندھوں پہ میری ساتھ ہجومِ یاراں
آخری بار میرا گھر سے نکلنا دیکھو
Leave a Reply