rki.news
تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
خٹک بیلٹ پاکستان کےصوبہ پنجاب کےضلع میانوالی کی تحصیل عیسےخیل کاایک ایساعلاقہ ہےجہاں ضروری سہولیات بہت ہی کم ہیں، حالانکہ یہاں کے پہاڑوں میں کوئلہ اورسلیقہ سمیت کئی قسم کی قیمتی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ان معدنیات کو پہاڑوں سےمزدور کڑی محنت کے بعد نکالتے ہیں۔کوئلے کی یا دیگر معدنیات کی کانوں کے ٹھیکے لینےوالے اور ان سے خرید کر معدنیات کو آگے بیچنے والے افراد کروڑوں اور اربوں روپے کماتے ہیں،لیکن جو مزدور کڑی اور شدید محنت کر کے ان معدنیات کو پہاڑوں سے نکالتے ہیں ان کی حالت بہت بری ہے۔مزدور سخت گرمی اورسخت سردی میں کڑی محنت کر کےکوئلہ اوردیگرمعدنیات پہاڑوں سے نکالتا ہے۔کوئلے کا کام کرنے والے مزدورسخت محنت کر کےاپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔کوئلہ کی کانیں/مائینز کئی کلو میٹر لمبی ہوتی ہیں اور ان لمبی لمبی مائینزمیں مزدور داخل ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں چھپا ہوا کوئلہ علیحدہ کرتے ہیں۔ان کانوں میں جب کوئلہ علیحدہ کر دیا جاتا ہے توکوئلہ باہر نکالنے کے لیےبھی کڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔گدھوں یا چھکڑوں کے ذریعےکوئلہ کانوں سے باہر نکالا جاتا ہے۔مائینزسے باہر نکالا گیا کوئلہ مخصوص پوائنٹ پر پہنچایا جاتا ہےاور وہاں سےلوڈ کر کےگاڑیوں کے ذریعےفیکٹریز اوراینٹیں وغیرہ بنانے والے بھٹوں کو بیچا جاتا ہے۔کوئلہ کے علاوہ دیگر معدنیات بھی سخت محنت کے بعد متعلقہ جگہوں تک فروخت کے لیے پہنچائی جاتی ہیں۔کوئلے کا کام کرنے والے مزدوروں کو کوئلےکےذرات اور گرد چپک جاتی ہےاورایسالگتاہےکہ کوئلے سےان کےجسم اورچہروں کولیپ کردیاگیاہے۔اتنی محنت کرنے کے بعد معمولی سا معاوضہ ان مزدوروں کو حاصل ہوتا ہے۔مزدور غم یا خوشی کے لیے بھی وقت نہیں نکال سکتا،کیونکہ غیر حاضری کی وجہ سے اس کو معاوضہ نہیں ملے گا۔
مزدوروں کو معمولی سا معاوضہ ملتا ہےاور دیگر سہولیات کابھی شدید فقدان ہے۔جن سہولیات کو ملکی اور بین الاقوامی قوانین میں مزدور کا حق تسلیم کیا گیا ہے،خٹک بیلٹ کی مزدوروں کو نہیں ملتیں یا اگر کرم نوازی کرتے ہوئےکچھ ریلیف مزدوروں کو ملے بھی تو بہت معمولی سا ریلیف ملتا ہے۔بعض مزدور سردیوں کی راتوں میں اٹھ کرکام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔رات کےبارہ اور ایک بجے اٹھ کرمزدور سخت سردیوں میں مائینز میں داخل ہو جاتے ہیں۔کڑاکے کی سردی میں جاگنا اور کام کی طرف روانہ ہونا بہت ہی اذیت ناک ہوتا ہے۔سخت گرمیوں میں دن کےبارہ یا ایک بجےکام کرنا بھی اذیت ناک ہے۔افسوس تب ہوتا ہے جب اتنی سخت محنت کرنے کے باوجود بھی ان کو قلیل سا معاوضہ ملتا ہے جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہتےہیں۔ایک مزدور کے بھی خواب ہوتے ہیں کہ اس کے بچے معیاری تعلیم حاصل کریں،علاج کی سہولیات دستیاب ہوں،خوشیاں وہ بھی منا سکےلیکن قلیل معاوضہ مزدور کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔جن مزدوروں کی محنت سےاربوں کمائےجاتے ہیں،ان مزدوروں کو معاوضے میں چند سو روپے تھما دیے جاتے ہیں۔بعض اوقات مزدور کو معاوضہ بھی نہیں ملتا یا فورا نہیں ملتا،جس کی وجہ سے اس کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
مزدور بعض اوقات حادثوں کا شکار ہو جاتےہیں۔کچھ مزدور معمولی سے زخمی ہوتے ہیں اور ایک دو دن کے بعد کام کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں لیکن کچھ مزدور عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں اور وہ کام کاج کے قابل نہیں رہتے۔بعض مزدور جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔جو مزدور حادثات کاشکار ہو جاتےہیں، ان کو فوری طور پر فرسٹ ایڈ نہیں ملتی۔غالبا مزدوروں کے لیے مکڑوال میں ایک ہسپتال ہےاور وہاں پوری ادویات بھی ندارد ہیں۔ہسپتال کو وسیع بھی کرنا چاہیے اورخٹک بیلٹ کے مختلف علاقوں میں معدنیات کی رائلٹی سےمختلف حصوں میں کم از کم بیسک ہیلتھ یونٹ قائم کرنے چاہیے۔ایمبولینسز فراہم کی جائیں۔مزدوروں کے بچوں کو تعلیمی مواقع بھی حاصل ہونے چاہیے۔مکڑوال میں ایک ہائیر سیکنڈری سکول موجود ہے اور اطلاعات ہیں کہ اب کالج کی منظوری ہو چکی ہے۔کالج کی تعمیر خوشی کی بات ہے۔دیگر علاقوں میں کم ازکم پرائمری سے مڈل کی سطح تک سکول تعمیر کیے جائیں،تاکہ مزدوروں کے بچے گھر کے قریب تعلیم حاصل کر سکیں۔زخمی یا معذور ہونے والے مزدوروں کو مناسب معاوضہ دیا جائے۔جو مزدور عمر بھر کے لیے معذور ہو جاتے ہیں،ان کو پنشن سمیت دیگر سہولیات بھی دی جائیں۔جن مزدوروں کی دوران کار اموات ہو جاتی ہیں ان کے بچوں اور اہل خانہ کے لیےمراعات کی منظوری ہونی چاہیے۔اکثریت مزدوروں کی پنشن سے محروم رہتی ہے۔چالیس چالیس سال تک کام کرنے والے مزدور پنشن اور دیگر سہولیات سے محروم رہتے ہیں اور ان کو سہولیات سے محروم کرنا سخت زیادتی ہے۔بعض مزدور سیفٹی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں اوربعض اپنی غلطیوں کی وجہ سےحادثوں کا شکار ہوتے ہیں۔سیفٹی کے بہتر انتظام کے ساتھ مزدوروں کی تربیت بھی کی جائے تاکہ حادثوں سے بچا جا سکے۔
سوال اٹھتا ہے کہ مزدوروں کی اذیت ناک حالت کا ذمہ دار کون ہے؟جواب دیا جا سکتا ہے کہ مزدورکی حالت کاذمہ دار مزدور خود ہے۔مزدور جب تک آواز نہیں اٹھائے گا اس کوحقوق نہیں ملیں گے۔اگر دعوی کیا جائے کہ مزدوروں کو حقوق مل رہے ہیں تو شاید چند مزدوروں کو حقوق مل رہے ہوں لیکن اکثریت محروم ہے۔مزدور قانون اور آئین کے دائرے میں رہ کراپنے حقوق کے لیے جدوجہد کریں۔جدو جہد اور احتجاج کے بغیر حقوق مشکل سے ملتے ہیں۔جدوجہد غیر قانونی طریقے سے نہیں کرنی چاہیے ورنہ انتشار پھیل سکتا ہے۔تین چار دہائیاں قبل مزدوروں کو مکمل حقوق ملتے تھے اور وہ سہولیات بھی حاصل تھیں جن کا بین الاقوامی قوانین میں تذکرہ ملتا ہے،لیکن اب محروم رکھا جا رہا ہے۔مزدوروں کی نا اتفاقی بھی ان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔بعض مزدور سمجھتے ہیں کہ ان کو کام سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے،اس خوف کی وجہ سے وہ احتجاج نہیں کرتے۔مزدوروں کی محنت کا احساس کرنا ہوگا،کیونکہ ان کی محنت سے عالی شان گھر اور کروڑوں کی گاڑیاں ٹھیکداروں کو ملتی ہیں۔مزدوروں کو چاہیے کہ اپنے حقوق کے لیےمتحد ہوں اور نظم و ضبط کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق مانگے جائیں۔
Leave a Reply