تازہ ترین / Latest
  Friday, October 18th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

دائروں میں زندہ شاہ دولے کے چوہے

Articles , Snippets , / Thursday, October 17th, 2024

از قلم عامرمُعانؔ
۔
میں جب پیدا ہوا تو میری آواز نکلنے سے پہلے میرے گرد چند دائرے لگا دیے گئے تھے اور میری پہلی رونے کی صدا نے مجھ کو نہیں معلوم تھا کہ ساری زندگی مجھے ان دائروں میں ہی گزارنے کا پابند بنا دیا ہے وہ رونے کی صدا میری رضامندی تصور کی گئی جو مجھے ان دائروں میں رہنے کے لئے بآواز بلند دینی پڑی۔
؎ دائرہ در دائرہ ہے دائرہ
ہے فقط یہ زندگی اک دائرہ
میرے گرد ایک بہت بڑا دائرہ میرے اجداد کے مذہب کا، پھر اس ہی کے نزدیک ایک اور قدرے چھوٹا دائرہ میرے بزرگوں کے ملک کا ، پھر اس سے چھوٹا دائرہ میرے فرقے کا، پھر چھوٹے چھوٹے کئی دیگر دائرے میری زبان رنگ نسل حسب و نسب کے لگے ہوئے تھے۔
مجھے ان دائروں سے علم کی روشنی بھی نہیں نکال سکتی تھی کیونکہ یہ علم کی شمع کے نیچے کا وہ حصہ تھا جس کو شمع چاہ کر بھی روشن نہیں کر سکتی اور جلتے جلتے بجھ جاتی ہے مگر زیر سایہ اندھیرے کا قبضہ قائم رہتا ہے۔
؎ شمع کرتی ہے سب جہاں روشن
زیر سایہ ہے گھپ اندھیرا کیوں
میں یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ اللہ نے یہ سب کچھ صرف پہچان کے لئے بنایا ہے ورنہ ان دنیاوی خصوصیات سے کسی کو نہ فوقیت ملتی ہے نہ تنزلی ، اصل دار و مدار تو صرف اور صرف تقوی پر ہے۔ جس کو سن کر یہ سماج صرف مسکرا سکتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری باتوں کی سچائی کے باوجود بھی کوئی ان دائروں سے نکل نہیں سکتا ۔
نہ ہی یہ کہنے سے میں اس دائرے سے نکل سکتا ہوں کہ اللہ نے جس کو جہاں اور جیسا پیدا کیا اس میں پیدا ہونے والے سے اس کی رائے معلوم نہیں کی گئی تھی ۔ تو پھر اچھے قبیلے سے ہونے کا تفاخر کیسا ؟اور اچھے قبیلے میں نہ پیدا ہونے کی محرومی کیوں ؟؟
میں ایک آزاد دنیا میں ضرور آیا ہوں لیکن یہاں انسانوں نے میری حد بندی کر دی ہے۔اس مسلک ، اس ملک ، اس صوبے ، اس شہر کا رہائشی مجھ کو بلا تفریق نہیں بلکہ تفریق کیساتھ بنایا گیا ہے اور ان سب دائروں سے مجھے چمٹا رہنا ہے کہ یہ مجھ کو رٹائے گئے ابتدائی سبق کے وہ الفاظ ہیں جو طوطے کی طرح بنا سمجھے ساری زندگی بولنے ہیں اور اس سے انکار غداری ہے جس کی سزا موت ہے ۔ اب انتخاب مجھے کرنا ہے عزت کی غلامی یا بے عزتی کی موت۔
جی ہاں بے عزتی کی موت کیونکہ ان میں سے کسی بھی دائرے کا انکار اس دائرے کے زمینی خدا کا انکار سمجھتے ہوئے یہ سماج آپ کے لئے بے عزتی کی موت کی سزا صرف تجویز نہیں کرتا بلکہ اس پر عملدرآمد کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔
میں ان دائروں سے بھاگ نہیں سکتا ، اس میں سے کسی دائرے سے نکل کر بھی میں آزاد نہیں ہو سکتا کیونکہ اور بہت سے دائرے میری تاک میں رہتے ہیں کہ کب میں ان میں سے کسی دائرے سے نکلوں اور دائرے سے نکلتے ہی دبوچ لیا جاؤں اور یوں پھر میں ایک نئے دائرے کا قیدی بنا دیا جاؤں۔
؎ تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
ان سب دائروں کی قیود کے آپ پابند ہیں ورنہ آپ کو راندہ درگاہ کر دیا جائے گا اور آپ کو جس کو خدا نے ایک معاشرتی حیوان بنایا ہے ، اسے معاشرے میں ایک ایسا حیوان بنا دیا جائے گا جو اس سماج کا حصہ ہی نہیں ہے اور بنا سماج کے وہ حیوان ایسا ہی ہے جیسے بنا پانی کے مچھلی جس کا سانس کی ڈوری سے رشتہ قائم رکھنا ایک ناممکن عمل ہے۔
انسان کو ہمیشہ آزادی کے خواب دکھا کر قید کیا گیا ہے وہ صرف ایک قید سے نکل کر دوسری قید میں تو جا سکتا ہے لیکن کبھی آزاد نہیں ہو سکتا۔
آپ کو بوقت پیدائش ہی وہ نادیدہ زنجیریں پہنا دی جاتی ہیں جن کو توڑنا بھی موت ہے اور جن کے ساتھ جینا بھی موت ہے کیونکہ یہ آپ پر ہے کہ یکدم موت کی خواہش کرتے ہیں یا پل پل موت کی
آپ کو سوال کرنے کی اجازت بھی یہ معاشرہ نہیں دیتا کیونکہ سوال کرنے والوں کو ان دائروں کے زمینی خدا پسند نہیں کرتے وہ آپ کے سر پر شاہ دولے کی وہ ٹوپی پہنانا چاہتے ہیں جس کے بعد آپ صرف ناچنے یا کھانے کے لئے زندہ رہیں اور اس زندگی پر خوش رہنا سیکھ جائیں
تو کیا ان دائروں میں آپ کی آزادی ممکن ہے ؟؟ آپ زیادہ سے زیادہ کیا آزادی حاصل کر سکتے ہیں ؟ اس کے لئے ایک چالاک اور فطین دماغ کی ضرورت ہے جو ان دائروں سے فائدہ اٹھانا جانتا ہو اور زیادہ سے زیادہ قیدی اپنے پاس جمع کر کے خود ایک زمینی خدا بن سکے یہ اس کی اس دنیا میں عظیم کامیابی تصور ہو گی اور وہ بعد از مرگ بھی ایک اعزاز کے ساتھ یاد رکھا جائے گا کہ اس کی اپنے دائرے کے لئے خدمات ناقابل بیان ہیں۔
آپ کسی ایک دائرے کو اپنے ذہن سے استعمال کر کے خود کو اس دائرے کے اونچے مقام پر فائز تو کر سکتے ہیں لیکن کیا زمینی خدا بن کر خود ان دائروں سے آزاد ہو جاتے ہیں ؟؟ تو اس کا جواب ہے نہیں کیونکہ آپ اگر زمینی خدا ہوتے ہوئے اس تصور کی نفی کریں گے جو لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں تو یہ ذہنی غلام قیدی آپ کو اس کی پاداش میں مسند سے اتار کر باغی کی حیثیت دیتے ہوئے وہی سزا دیں گے جو معاشرے کی بغاوت کے جرم کی زمینی خداٶں نے مقرر کر رکھی ہے
ہو سکتا ہے کوئی اس سماج میں برسوں سے قائم حدود میں پیدا شدہ غیر معمولی صلاحیت کا حامل وہ شخص ہو جو صدیوں میں آتے ہیں۔ اور وہ ان تمام دائروں سے اکتایا ہوا بھی ہو ، تو کیا وہ ان دائروں سے آزاد ہو سکتا ہے ؟؟ کیا یہ ایک ممکن عمل ہے ؟ جی بالکل اس صورتحال میں وہ اپنا ایک الگ دائرہ لگا کر لوگوں کو اس دائرے کا غلام بنائے گا اب یہ اس کی قسمت پر ہے کہ اس دوران میں یہ سماج اس کو اپنی رائج کردہ سزا میں مار دے یا وہ اتنے غلام قیدی اپنے دائرے میں لانے میں کامیاب ہو جائے کہ آگے آنے والے لوگ اس کو ایک نئے دائرے کا زمینی خدا سمجھیں اور اس کے بعد اس کے دائرے کے زمینی خداٶں کی اسی طرح تعظیم کریں جیسے پچھلے دائروں کے ماننے والے اپنے زمینی خداٶں کی کرتے ہیں
لیکن آزادی تب بھی انسان سے دور ایک خیال ہی بنی رہے گی


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International