عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لو جی دادا ٹرمپ دوبارہ سے دنیا کے دادا بننے کی دوڑ جیت کر دادا گیری کرنے کا حلف 20 جنوری 2025 کو اٹھا کر دور دادا پہلوان کا دوبارہ وہیں سے آغاز کرنے کا فیصلہ لیں گے جہاں سے چھوڑا تھا یا نئی تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کریں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ دادا پہلوان کی امریکی قانون کے مطابق یہ آخری مدت ہے داداگیری کرنے کی، کیونکہ ہماری قوم کے برعکس امریکی دو بار سے زیادہ ایک دادا برداشت نہیں کرتے اور نئے دادا کے لئے پرانے کو جگہ چھوڑنے کا پیغام دے دیتے ہیں ۔ سو ٹرمپ اس مدت میں ہی وہ تمام فیصلے کرنے کی کوشش کریں گے جس کی بناء پر وہ امریکی داداؤں میں اپنی دادا گیری کے دور کو سنہری حروف میں لکھوا سکیں۔ وگرنہ ‘ٹرمپ کی داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں،’ کے مصداق تاریخ کے صفحات میں وہ کہیں گم ہو جائیں گے ۔ جیسے بائیڈن دادا تاریخ کے صفحات میں گم ہونے جا رہے ہیں۔
ٹرمپ نے کامیابی کے بعد پہلی تقریر میں انتخابی وعدے کے پیش نظر کسی نئی جنگ نہ چھیڑنے کا اعلان تو کر دیا ہے اور جاری جنگوں کو ختم کروانے کی بات بھی کر دی ہے۔ لیکن کیا یہ اتنا ہی آسان کام ہے؟ سب جنگیں بند ہونے پر یہ اسلحہ ساز فیکٹریاں دادا کو اس کی اوقات دکھانے میں ذرا بھی تحمل کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے دادا کو پہلوانی کے نئے داؤ لگا کر چت کرنے کی پوری کوشش کریں گی۔ اب دادا ٹھہرے پرانے پہلوان تو یہ دیکھنے میں مزہ آئے گا کہ کون کس کو چت کرتا ہے۔
اب ساری دنیا کی فکر چھوڑ کر ہم پاکستانی بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق خوب بھنگڑا ڈال کر دادا کو اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کر تو رہے ہیں لیکن دادا جی نے تو پچھلی بار بھی مخالف کیمپ میں دنگل لگا کر ہمارے خوب پیچ ڈھیلے کئے تھے، لیکن شائد اس بار ظلِ الٰہی رحم فرما کر اپنی کُشتی کے داؤ مخالفوں پر چلا کر ہم پاکستانیوں کو بھی جیت کی خوشی کے لڈو کھانے کا موقع دیں۔
ویسے تو ہمارے سابقہ سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے جنوبی ایشیاء کے لئے کسی بڑی تبدیلی کے امکان کو رد کرتے ہوئے یہ نوید بھی سنائی ہے کہ دادا کو ہماری اہمیت کا پتہ ہے کہ دنیا ہماری پہلوانی کے بھی گن گاتی رہی ہے یہ اور بات کے ابھی کچھ خوراک میں کمی کے باعث کمزوری کا مرض لاحق ہے، ورنہ ہم جس علاقے کے چھوٹے دادا ہیں وہ دادا جی کو اپنی دادا گیری کے لئے بہت ضروری ہے۔ اور شائد اسی خاطر وہ ہم پر دست شفقت رکھ دیں کہ ہم ان کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھوانے میں معاؤن ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ کریڈٹ بھی ہمیں جاتا ہے کہ ٹرمپ دادا نے ہمارے مشرف بھائی کے پاکستان فرسٹ سے متاثر ہو کر اپنی پہلی مدت صدارت میں امریکہ فرسٹ کا نعرہ لگا دیا تھا ۔ لیکن ایک عالمگیر دادا کے لئے پوری دنیا پر حکومت کرتے ہوئے صرف ایک ملک کے مفاد کا تحفظ کافی مشکل کام ہے۔ اور یہی وجہ رہی کہ ٹرمپ پہلی مدت میں خاطر خواہ کامیابی نہ سمیٹ سکے۔ لیکن امید ہے ہماری طرح پرانی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے والی روایت کی وہ پیروی نہ کرتے ہوئے پرانے اسباق سے سیکھتے ہوئے دنیا کی بہترائی کے لئے بہت سے کام کر جائیں گے۔ ویسے ایک پہلوان سے زیادہ امید تو توڑ پھوڑ کی ہوتی ہے مگر پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے شائد اس بار پہلوان کچھ جوڑ کر چلا جائے ۔
دادا جی کو بخوبی علم ہے کہ عوامی تقریر اور انتظامی فیصلوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اس لئے یہ امید ہے کہ دادا جی اپنے فیصلوں سے خود کو امرت جام پلانے کی کوشش کریں گے نا کہ 4 سال بعد گمنامی میں گم ہو جانے کے لئے۔
ٹرمپ دادا امریکیوں کا مضبوط انتخاب بن کر سامنے آئے ہیں لیکن وہ اس کے لئے بہت سے خواب دکھا کر آئے ہیں اور ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ خوابوں کی تعبیر سننے میں جتنی بھلی لگتی ہے دیکھنے میں اتنی خوشنما نہیں ہوتی ۔ دادا امریکیوں کے بہت سے مسائل کے حل کا خواب ایسے دکھا کر کے آئے ہیں جیسے شیخ چلی انڈوں سے محل کھڑا کرنے کے خواب دیکھتا رہتا تھا ۔بس دعا ہے کہ ٹرمپ دادا انڈوں کی ٹوکری پر لات نہ مار دیں ۔
دادا کے سامنے ایک مسئلہ مشرق وسطٰی کے چھوٹو کو کنٹرول کرنے کا بھی ہے ۔ اب وہ ایک ایسی ہڈی ہے جو امریکی نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں ۔ اب دونوں ہی صورتوں میں دادا کے پیٹ خراب ہونے کے امکانات بہت روشن ہیں کہ ضدی بچہ تو نہ کسی کی سنتا ہے اور نہ مانتا ہے۔ اب ڈانٹ سے تو کام چل نہیں رہا اور اب تک کسی میں مارنے کی ہمت ہوئی نہیں ۔ لیکن ہمارے دادا ٹھہرے پہلوان آدمی جو مارتے پہلے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں تو اس کشتی میں کچھ نہیں بہت زیادہ دلچسپی کے آثار نظر آ رہے ہیں ۔
ٹرمپ دادا کا دور 20 جنوری 2025 سے آغاز ہوا چاہتا ہے۔ دادا خوب خوب مبارکباد سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ ہم نے بھی دادا کو مبارکباد کے پیغامات بھجوا کر یہ بتایا ہے کہ دادا آپ کے آنے پر ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے ۔ اب دادا کو غیر نہ بھڑکا دیں کہ دادا ہماری خوشی ان سے زیادہ ہے۔ لیکن غیر بھی تب بھڑکا سکتے ہیں جب ہم یہ باور کروانے میں ناکام ہو جائیں کہ دادا ہم آپ کے لئے کتنے ضروری ہیں ۔سو ہمیں دادا کو دکھانے کے لئے اور خود کو ضروری بنانے کے لئے لیاقت علی خان کے الفاظ میں ایک مکا کی طرح پہلے خود ایک قوم بن کر یکجا اور مضبوط ہونا پڑے گا ، کیونکہ آپ کی اہمیت تب ہی ہوتی ہے جب آپ خود ایک طاقت ہوں۔ تب کوئی بدمست ہاتھی آپ کو گھاس سمجھ کر مسلنے کی غلطی نہیں کرتا ۔
Leave a Reply