Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دل آزاری کی انتہا مت کر

Articles , Snippets , / Sunday, October 26th, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
آپ نے اکثر ہی لوگوں کو بے بسی، لاچاری، محرومی کے عالم میں روتے ہوے، سسکتے ہوے،ہچکیوں
کے ساتھ، آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں اور بنا آنسوؤں کی جھڑی کے ساتھ روتے دیکھا ہو گا، کبھی شاہراہوں پہ، کبھی ریستورانوں میں، کبھی بھرے پرے بازاروں, کبھی ریستورانوں میں، کبھی شاپنگ پلازوں میں، کبھی جم خانوں میں، کبھی درگاہوں میں، کبھی قبرسستانوں کی جان لیوا خاموشی میں، کبھی شادی والے گھر کی تیز ڈھم ڈھم میں، کبھی چلتی ہوی ریل گاڑیوں میں، کبھی بند کمروں میں، تنہایوں کے آنچل میں، کبھی زندہ دل، ہنستے گاتے لوگوں کے ہجوم میں، کبھی کسی کے کندھے پہ سر رکھ کر اور کبھی اپنے ہی ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں منہ چھپا کے روتے ہوے، ہاے یہ رونا بھی نہ ایک عجب طرح کی رہای بن جاتا ہے دکھوں اور تکالیف سے، اور مجھے تو یقین مانیے اپنی ماں کے ہوتے ہوے کبھی رونا آتا ہی نہ تھا،بڑے سے بڑا مسئلہ بھی ماں کو گوش گزار کر کے میرا مسئلہ حل نہ بھی ہوتا تو بھی مجھے لگتا مسلہ مرشد کے حضور گوش گزار کر دیا ہے تو اب مسلہ حل ہی سمجھو بی بی پونم، اور چونکہ ماں کو دنیا سے جانے اور رب سے ملنے کی جلدی بھی زیادہ تھی تو وہ ایک ایسے موسم میں کوچ کر گءی جب بچوں کو ماں کی ضرورت بہت زیادہ تھی، وہ چھوٹے والا ماں کا لاڈلا تو کمرہ امتحان میں، ماں سے کوسوں دور انجان ہی تھا کہ ماں اب اس کے لاڈ اٹھانے کے لیے نہ ہے.
کس لیے کوچ کرتے جاتے ہیں
وہ پرندے جو بہت پیارے تھے
سدا کسی نے نہیں جینا، ہر آنے والے نے جانا ہے، مگر
اسے جلدی تھی بہت جانے کے
آسمانوں پہ گھر بنانے کی
تو وہ بچوں کی عاشق، محبت کرنے والی ماں جب چلی گءی تو مجھے باقی بہن بھاییوں کا تو پتا نہیں لیکن میرے رونے صرف اور صرف اللہ کے سامنے ہونے لگے، اور وہ میرے آنسو پونجھنے کے لیے نیچے اترنے لگا، بس میرے لیے کافی تھا، ماں کے بعد میرے اشکوں کی پذیرائی ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والے نے اپنے ذمے لے لی تھی. زندگی میں جتنی بھی آسائشیں ہوں، ہم جتنی بھی خوشیوں کے جھولے جھولتے پھریں، اچھے اچھے مزیدار کھانے کھاتے پھریں، مہنگے، ریشم و اطلس کے ملبوسات اپنے تن بدن پہ سجاتے پھریں، بھلے کسی گلی محلے کے پارک کے معمولی جھولے جھولتے پھریں یا ڈزنی لینڈ کے ہای فای مہنگے جھولوں سے لطف اندوز ہو لیں، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان کی آنکھ نم نہ ہو، ہر انسان کی راہ میں کہیں نہ کہیں کچھ ایسی رکاوٹیں یا مشکلات اپنا سر نکال کے کھڑی ہو ہی جاتی ہیں جو ہمیں رونے پہ مجبور کر ہی دیتی ہیں، لیکن کبھی کبھار کچھ لوگ ہماری اور آپ کی زندگیوں میں اس طرح سے اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں کہ غضب کی دل آزاری کرنے سے بھی نہیں چوکتے،اور دل کی چوٹوں پہ اشکوں کا سیل رواں جاری نہ ہو، ناممکنات میں سے ہے. مسز سلامت آرا کی شادی بد بختی سے ایک ایسے شخص سے ہو گءی جو چرس کا نشہ کرتا تھا، کام کاج سے کوسوں دور سلامت علی نہ صرف نشءی تھا بلکہ عورتوں کا بھی رسیا تھا، اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ روز ایک نیا بیاہ رچا لیتا، مگر ہمارا رب پہ پختہ یقین بھی ہمارے ٹوٹنے والے ارادوں کی بکھری ہوی دھجیوں کی طرح ہمیں یہ بار آور کروانے کے لیے کافی ہے کہ اللہ ہی ہر شے کا مالک اور تقدیر بنانے والا ہے. مسز سلامت والدین کی طرف سے مالی طور پر مضبوط تھیں، مگر وہی ازلی مردوں کی اجارہ داری کہ وراثت میں براے نام حصہ دے کر ساری بہنوں کو ٹرخانے والے بھای مسز اسلم.سے جان چھڑانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے. ٹانگیں توڑنے سے بچوں کو اغوا کرنے کی دھمکیوں تک مسز اسلم کو ہر طرح کی Harrasement kکا سامنا کرنا پڑا تھا مگر چونکہ بہادر خاتون تھیں، دوسرے عرصہ دراز سے زمانے کے گرم سرد سے نبرد آزما تھیں لہذا دل آزاری اور لفظوں کے تمام نشتر سہہ کے، اشکوں کی برسات کرنے اور سہنے کے بعد پھر سے دنیا کی دوڑ میں شامل تھیں.
لیکن خدا را کسی بھی انسان کو نشانہ تختہ ستم بنانے سے پہلے غور ضرور فر ماییے گا کہ گوشت پوست سے بنے ہوے انسانوں کی دل آزاری کرتے ہوئے، دل آزاری کی حدود و قیود کا خیال ضرور رکھیے گا یہ نہ ہو کہ آپ اپنی شوخی اور تکبر میں کسی کی اتنی دل آزاری کر دیں کہ رحمت خداوندی جوش میں آ جاے اور پھر آپ کے پاس سوائے پچھتاوے کی چڑیوں اور ندامت کے اشکوں کے کچھ بھی نہ بچ پاے، اور ایک بات ضرور یاد رکھیے کہ محرومی کے اشکوں اور ندامت کے اشکوں کے مرتبے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، محرومی کے اشکوں کو پونجھنے اللہ پاک خود زمین پہ اتر آتا ہے اور ندامت اور پچھتاوے کے اشکوں کی پہنچ اس آستانے پہ ہوتو جاتی ہے مگر ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد.
دل آزاری اور بے جا دل آزاری سے گریز کیجیے اور اگر جانے انجانے میں کسی کی دل آزاری ہو بھی جاے تو اسے اپنی آخری سانسوں سے پہلے منا لیجیے، یہی کاروان حیات کا حسن ہے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International