Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دل کھولئے ، اس سے پہلے کہ دل بند ہو جائے

Articles , Snippets , / Monday, September 29th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
چہرے سجے سجے ہیں تو دل ہیں بجھے بجھے
ہر شخص میں تضاد ہے ، دن رات کی طرح
زیادہ پرانی بات نہیں ایک دور ہوا کرتا تھا، جب لوگوں کے ہونٹوں پہ سدا مسکان اپنا بسیرا بنائے رہا کرتی تھی۔ دل کے دروازے اپنے تو کیا اغیار کے لئے بھی کھلے رہا کرتے تھے ۔ جذبات میں بناوٹ کا شائبہ تک نہ تھا ۔ خالص خوراک کھائے ہوئے خالص جذبات والے لوگ ہوا کرتے تھے۔ اپنوں کی خوشی اور غم کی تو بات ہی کیا، اغیار کی خوشیاں دیکھ کر بھی سب کے چہرے کِھل جایا کرتے تھے۔ اغیار کے غم میں آنکھیں یوں برسنا شروع ہو جاتی تھیں، جیسے کسی اپنے بہت ہی عزیز از جان کا غم ہو۔ محلے آباد رہا کرتےتھے، اور محلے دار ایک دوسرے کے دلدار ہوا کرتے تھے ۔کسی ایک فرد کی پریشانی کا بھی سن کر سارے محلے کی فضاء سوگوار نظر آنے لگتی، اور کسی ایک فرد کی خوشی میں فضاء یوں مہکتی کہ دور سے پتہ چل جاتا تھا کہ محلے میں کوئی خوشی آئی ہے۔ محلے کے  فردِ واحد کی کامیابی پر سارا محلہ خوش ہوا کرتا تھا ۔
یہی دل تھا کہ تڑپتا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
شومئی قسمت، وقت بدلا ، حالات بدلے ، لوگوں کا معیار زندگی بدلا ۔ ہونٹوں پر مسکان کی جگہ تناؤ نے لے لی، اور دل کے وہی دروازے اغیار کے لئے تو کیا، اپنوں کے لئے بھی بند ہو گئے۔ اپنی اپنی تنہائی میں خوشیاں ڈھونڈنے کی رسم یوں شروع ہوئی، کہ خوشیاں ہی روٹھ گئیں، اجتماعی خوشیوں نے انسانوں کی بستی سے منہ ہی موڑ لیا۔ انسان کو زندگی کی دوڑ میں گھوڑا بن کر بھاگنے کا شوق چرایا، اور زندگی نے بھی بدلے میں ایک ایسی دوڑ کا مسافر بنا دیا کہ جہاں تھک کر گرنے والے کو تھامنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے غم کو دوسرے سے بانٹنے میں شرمانے لگا ہے، اور خوشی بانٹنے میں کٹھور پن زندگی کا حصہ بناتا چلا گیا ہے۔ پیسہ ہی کو اپنا اصل محبوب بنائے بیٹھا ہے، اور محبت کو کسی رقیبِ روسیاہ  کی طرح دھتکار رہا ہے۔
محلے آباد کرنے کا وقت رک سا گیا ہے۔ سارا وقت سوشل میڈیا یوں کھا رہا ہے کہ زندگی کے تیزی سے گزرنے کا احساس ہی ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ احساس زیاں ذہن سے محو ہو چکا ہے۔
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئ ڈھونڈھے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
دل میں اگر کوئی امنگ باقی ہے تو وہ صرف دنیا کمانے کی امنگ ہے۔ دل پتھر ہو چکے ہیں۔ سنگدلی کی انتہا نے ہمدردی کا جذبہ دیمک کی طرح چاٹ کھایا ہے۔ اب تو سامنے ہوا کوئی حادثہ دیکھ کر بھی مدد کرنے کا خیال نہیں آتا، بلکہ جلدی سے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالنے کی فکر رہتی ہے۔ موبائل نے  انسانوں کے سب حواس کھو لئے ہیں۔ ہمدردی کا دکھاوا سوشل میڈیا پر کرنا باقی رہ گیا ہے۔ اصل زندگی میں اپنوں سے ایک عرصہ بِنا ملاقات دُور رہنے کا احساس بھی مٹ چکا ہے۔ اپنوں کے لئے سینے میں سمندر کی لہروں کی طرح امڈتے جذبات اب کسی برف کی طرح سرد ہو چکے ہیں۔
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
معاشرے کا بے ہنگم شور انسانیت کے دمِ آخر پہ ہونے کا اعلان کرتا گزر رہا ہے۔ ہر روز انسانیت سے گری ہوئی حرکات کی خبریں معاشرے کو جگانے کے لئے چیختی چلاتی میڈیا کی زینت بنتی ضرور ہیں، لیکن خوابِ خرگوش کے مزے لیتے انسان کو نیند سے بیدار کرنے میں ناکامی کا منہ ہی دیکھتی ہیں۔ پیسہ کمانے کی ہوس دل میں ایسے سما گئی ہے کہ اچھے برے کی تمیز ختم ہو چکی ہے۔ ایک ہی مقصدِ حیات ہے کہ پیسہ آنا چاہئیے۔ چاہے وہ کسی بھی طرح حاصل ہو۔ اب مریض صرف گاہک ہیں اور ڈاکٹرز تاجر ۔ طلباء گاہک ہیں تو اسکول مالکان تاجر ۔ الغرض ہر جگہ گاہک اور تاجر کا معاملہ انسانیت کو کھائے جا رہا ہے۔ دل کی تنگی بڑھتی جا رہی ہے، اور اسی سبب اب جوان دل بند ہونے کی خبریں بھی عام ہونے لگی ہیں۔ اچانک کارڈک اٹیک سے یکدم مرتے لوگ نظر آنے لگے ہیں۔ اسپتال کے شعبہ امراضِ قلب میں دل کی سرجریاں عام بات ہو گئی ہیں۔ انسان نے اپنے دل کے دروازے کیا بند کئے، اسپتالوں کے دروازے کھل گئے۔ اپنے غم کو بانٹنے کے بجائے خود برداشت کرنے کا چلن کیا عام ہوا، دل کی بیماریاں عام ہو گئیں۔ ادویات بنانے والوں کی چاندی کرنے کے لئے، اپنی زندگی گھوڑے کی طرح بھاگ کر گزارنے والوں کہ لائن بڑھنے لگی ہے۔ اپنی زندگی گنوا کر کمایا جانے والا سونا دوسروں کی تجوریاں بھرنے کے کام آ رہا ہے۔ انسان پھر بھی قدرت کی نشانیاں سمجھ نہیں پا رہا ہے۔ ویسے ہی زندگی بوجھل بوجھل گزار کر زندگی گزارنے کی رسم ادا کر رہا ہے۔ اب بھی سوچنے کا وقت ہے۔ دل کے دروازے اپنوں کے ساتھ اغیار کے لئے بھی کھولنے کا وقت ہے۔ اگلی نسل کو زندگی کے حقیقی معنی محبت اور برداشت سکھانے کا وقت ہے۔ گلی، کوچوں سے روٹھی ہوئی زندگی کو واپس دعوت دے کر بلانے کا وقت ہے۔ دل کے دروازے اب بھی کھول لیجئے، انسانیت کو زندہ کیجئے ۔ اس سے پہلے کے اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں زبردستی یہ دل کھولا جائے۔ اپنوں سے دل کھول کر ملیں گے تو ڈاکٹرز کو دل کھولنے کے مواقع کم ہی ملیں گے۔
مرے چارہ گر بہت ہیں یہ خلش مگر ہے دل میں
کوئی ایسا ھو کہ جس کو ہوں عزیز میرے گھاؤ


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International