تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین !بہادر شاہ ظفر مرحوم جو ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ان کا ایک شعر پڑھا۔۔۔۔
لےگیا چھین کے کون آج تیرا صبروقرار
بےقراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی
انسانی جسم میں دل ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔دل کے دریچے خوش گفتاری اور حسن گفتار سے سجتے ہیں۔دل کی خوب صورتی کا راز یہی ہے کہ انسان دوسروں کے اطمینان اور چین کے لیے زندہ رہنا سیکھ لے۔لیکن افسوس ہماری زندگی میں اخلاقی پستی ایک المیہ سے کم نہیں۔بقول شاعر:۔
تیری زباں کے مقابل یہ قلب کا پردہ
ہوا یوں چاک کہ اس پر رفو نہیں ٹھہرا
معاشرے اور سماج میں اخلاق سے عاری رویے تنگ نظری اور تنگ دلی کے مترادف ہیں۔اس کے نتیجہ میں ہر طرف ہر طرف سے نفرتوں کے تیر چلتے ہیں۔امیر اور غریب کے امتیاز سے انسانیت کا احترام کا پیرہن دریدہ ہے۔زمین اور زر کے لیے لڑنا جب معمول بن جاۓ تو ہوس اپنے پنجے گاڑ لیتی ہے اور محبت کا چمن اجڑ جاتا ہے۔بادشاہ بھی جاتے ہیں اس سراۓ فانی سے تو المناک داستان چھوڑ جاتے ہیں۔بقول شاعر:۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں نہ ملی کوۓ یار میں (بہادر شاہ ظفر)
زندگی کے تقاضے تو عجیب ہوتے ہیں۔دلوں میں اتحاد اور اتفاق کا فقدان کیوں؟ضرورت تو فقط اس بات کی ہے کہ سماج اور معاشرے میں رہنے والے والے لوگ دل کے دریچے کھلے رکھیں۔مسکراہٹوں کو معمول بنائیں کیونکہ مسکرانے سے تو پھول کھلتے ہیں۔دلوں میں چاہت اور الفت کی لہر سی پیدا ہوتی ہے۔درد دل سے دلوں میں چمک اور رخشندگی پیدا ہوتی ہے۔چاہت انگڑائی لیتی اور مسرت کے گل خندہ ہوتے ہیں۔ہر انسان تو یہی خواہش رکھتا ہے۔بقول شاعر:۔
ایک ہلکا سے تبسم ہے قیمت میری
خوش مزاجی اور زندہ دلی کی روش کے بہت اچھے فوائد اور اثرات سامنے آتے ہیں۔اچھا ماحول اچھی باتوں سے پیدا ہوتا ہے۔اس لیے ہر فرد کو چاہیے کہ نوک زبان سے جو بات کرے اس سے محبت کی خوشبو آۓ۔نفرت کی دیواریں گرا کر محبتو ں کے گھروندے بنانا ہے۔امن پسندی تو زندگی کی خوب صورتی کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔لیکن مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب نفرتوں کی آندھیاں مجبتوں کے چراغ گل کر دیتی ہیں۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ محبت بھرے سلوک سے قربتوں کے سلسلے پیدا ہوتے ہیں۔انسانی رشتوں میں بھی قربت اور ان کا احترام پیدا ہوتا ہے۔صلہ رحمی سب سے بہترین خوبی ہے جس سے سماج اور معاشرہ کی خوب صورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔نرمی سے بات کرنا ہی تو انسانیت کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔دوسروں کے دل فتح ہمیشہ نرم رویہ سے ہوتے ہیں۔جو لوگ دل کے دریچوں میں جگہ رکھتے ہیں وہی زندگی کے چمن میں لطف اٹھاتے ہیں۔انسان کی تخلیق بھی قدرت کی عظیم کاریگری ہے۔اسے درد دل کی ثروت سے بھی نوازا گیا ہے۔انسان کو اپنی زندگی ایسے خطوط پر گزارنی چاہیے جب سراۓ دہر سے چلا بھی جاۓ تو یادوں کی خوشبو باقی رہے۔اس بات پر یقین رکھنا ہی کامیابی ہے کہ زندگی ایک امانت ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ جب خود غرضی ڈیرے ڈال لیتی ہے حرف حرف محبتوں کے پھول پژمردگی کی نذر ہو جاتے ہیں۔دلوں میں محبتوں کے پتے خشک ہو نے سے خزاں دستک دیتی ہے۔تنہائی مقدر بن کر رہ جاتی ہے۔الفت کے سمن زار ماند پڑنے سے گلزار زندگی متاثر ہوتا ہے۔اس حقیقت سے کبھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی سب رنگینیاں حسن اخلاق کی بدولت ہیں۔ماہرین کے مطابق زندگی کی مثال چمکتے چاند اور ڈوبتے سورج کی مانند ہے۔بہتر تو یہی ہے کہ ایسے کمزور لوگوں پر نظر رکھی جاۓ جو زندگی کے سفر میں دو وقت کی روٹی اور علاج کے لیے دوا خریدنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ان لوگوں کے حالات سے باخبر رہیں جو زندگی کے سفر میں مشکلات کا شکار ہعتے ہیں لیکن اظہار نہیں کر پاتے۔وقت کی پکار تو یہی ہے کہ آپس کے معاملات بحسن و خوبی انجام دیں۔اخلاص ایک ایسی خوبی ہے جس سے زندگی کا گلشن مہکتا ہے اور اطمینان کے پھول کھلتے ہیں۔آخر یہ کیسے ممکن ہے؟
اس کے لیے وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے۔با مقصد کتب پڑھنے سے دل کے دریچوں میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔جو لوگ دوسروں کے لیے دل کے دریچوں میں نرم گوشہ رکھتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں۔
Leave a Reply