تازہ ترین / Latest
  Wednesday, January 22nd 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

دودھ کی نہر

Articles , Snippets , / Friday, January 10th, 2025

پاکستان میں دودھ کی نہر بہہ رہی ہے ۔ میری یہ بات سن کر بدھو میاں صوفے سے یوں اچھلے اور دور جا کر گرے جیسے اس بات نے کاٹ لیا ہو ۔ اور پھر شدید حیرانی سے میرا منہ تکتے ہوئے کہنے لگے ، کیا کہا ؟ پاکستان میں دودھ کی نہر بہہ رہی ہے ؟ کہاں بہہ رہی ہے یہ نہر ؟ ہمیں بھی بتاؤ ؟ میں نے بدھو میاں کی حیرت میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا ، کہاں سے کیا مطلب ۔ یہ نہر تو ہمارے چاروں طرف بہہ رہی ہے اور بہت سے لوگ اس میں روزانہ غوطہ لگا لگا کر خوب سیراب ہو رہے ہیں ۔ اور اپنے تئیں بہت مزے سے زندگی گزار رہے ہیں ۔ یہ سن کر تو بدھو میاں تقریبا” بے ہوش ہونے کے قریب پہنچ گئے ، اور روتے ہوئے کہنے لگے یعنی اس نہر سے سب فائدہ اٹھا رہے ہیں ، اور میں ابھی تک پیاسا اور محروم ہوں ۔ اس طرح تو یہ سب لوگ روزانہ نہر سے دودھ پی کر نہر ہی خشک کر دیں گے ۔ مجھے تو پھر نہر سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا ، ایسا کچھ نہیں ہے ، یہ نہر تو سالوں سے لوگوں کو سیراب کر رہی ہے اور فی الحال تو اس کے خشک ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔

بدھو میاں پوچھنے لگے کیا واقعی یہ نہر ہمارے چاروں طرف بہہ رہی ہے ؟ میں نے جواب دیا جی بالکل یہی سچ ہے کہ یہ نہر ہمارے چاروں طرف گھروں میں ، دفتروں میں ، پلازوں میں ، بازاروں میں ، غرض ہر جگہ ہی یہ نہر پوری آب و تاب سے بہہ رہی ہے ۔ بدھو میاں کی اب حیرت واقعی دیدنی تھی ۔ سو بدھو میاں کو مزید تنگ کرنے کے بجائے ان کو میں نے تھوڑا سمجھانے کے لئے پوچھا ۔ اچھا بدھو میاں یہ بتاؤ ہمارے ملک میں ایک عام ملازم کی تنخواہ کتنی ہوتی ہے ؟ بدھو میاں نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا کہ زیادہ تر ملازمین کی تنخواہ ہزاروں میں ہے اور کچھ ہی افسران کی تنخواہ چند لاکھ تک ہوگی ۔ یہ سن کر میں نے فورا” نیا سوال داغ دیا اور پوچھا اچھا یہ بتاؤ کہ پھر ان کی طرز رہائش کیسی ہے ؟ کیا ان کی طرز زندگی ان کی موجودہ تنخواہ سے پوری ہو سکتی ہے ؟

بدھو میاں نے فورا” جواب دیا ، کہاں سے پوری ہو سکتی ہے ۔ بجلی ، گیس ، فون وغیرہ کے بل ،رہائش ، کھانے اور ادویات کے اخراجات اور پھر بچوں کی مہنگے اسکولوں میں تعلیم ۔ یہ تو موجودہ تنخواہ میں کسی طرح بھی ممکن نہیں ۔ تو میں نے ہنستے ہوئے پوچھا ، پھر یہ اضافی خرچ آخر کیسے پورا ہوتا ہے ؟

بدھو میاں نے آنکھیں پھاڑتے ہوئے پوچھا ۔ بتاؤ ، پھر کیسے پورا ہوتا ہے ؟ میں نے بتایا اسی دودھ کی نہر سے تو پورا ہوتا ہے ۔ ذیادہ تر ملازمین اس نہر میں سے حصہ بقدر جثہ کے مطابق اپنا اپنا حصہ لے لیتے ہیں ، اور خوش ہو جاتے ہیں کہ دیکھو ہمارا معیار زندگی کتنا بلند ہو رہا ہے ۔ یہی حال ہمارے ملک کے بازاروں کا بھی ہے ، اگر دکاندار اصل قیمت پر اشیاء فروخت کریں تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ منافع ہمارے معیار زندگی برقرار رکھنے میں مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ تو جب اصل قیمت پر بیچ کر اتنا منافع نہیں ملتا تو پھر اس نہر کے ذریعے منافع دوگنا ، تین گنا یا پھر چار گنا تک بھی پہنچا دیا جاتا ہے ۔ یہاں بھی جتنا آپ کا کمال اتنا آپ کا حصہ ہی چلتا ہے ۔بدھو میاں دم سادھے ساری باتیں غور سے سن رہے تھے ۔ میں نے پھر کہا، بجلی ،گیس ، فون، پانی کے بلوں کی ادائیگی دن بدن مہنگائی کی وجہ سے مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے ۔ لیکن کیا کبھی لوگوں کو اس پر احتجاج کرتے دیکھا ہے ؟ بدھو میاں نے مایوسی سے نفی میں گردن ہلا دی ۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو پھر آخر کیسے ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھا جاتا ہے ؟ اور فورا” ہی جواب بھی دے دیا کہ زیادہ تر اسی نہر کو کام میں لا کر مزے کر رہے ہیں ۔

بدھو میاں اس نہر کے بارے میں جاننے کو بیتاب تھے ۔ اس لئے میں نے بدھو میاں کو نہر کے بارے میں بتانا شروع کر دیا ۔ دیکھو بدھو میاں اس نہر سے فائدہ اٹھانے والے یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ وہ فائدے میں ہیں یا نقصان میں ۔ ان سب نے اس نہر کا نام آپس میں اتفاق سے مل کر جگاڑ رکھ لیا ہے ۔ اور بس ایک دوسرے سے کہتے رہتے ہیں کہ یار جب تک جگاڑ لگا ہوا ہے تو ڈر کس بات کا ہے ۔ اب میں نے بدھو میاں کو مزید تفصیل سے بتانا شروع کیا۔ اگر دفتروں میں یہ نہر یا جگاڑ رشوت کا متبادل ہے ، تو بازاروں میں ذخیرہ اندوزی کا ، دکانداروں اور کاریگروں میں ناجائز منافع کا متبادل ہے ، تو گوداموں میں ذخیرہ اندوزی اور گرانی کا ۔ گھروں میں میٹر میں ہیرا پھیری کرنے کا متبادل ہے ، تو کارکنوں اور ملازمین میں کام چوری کا ۔اور یوں اکثریت اس ملک کی اس ہی جگاڑ میں لگی ہوئی ہے ۔ یہ سب اس نہر میں سے اپنا حصہ لے رہے ہیں ۔اور سب خوش و خرم ہیں کہ ہمیں ہمارا حصہ مل رہا ہے یعنی ہمارا جگاڑ لگا ہوا ہے ۔

بدھو میاں ساری بات سمجھتے ہوئے یکدم بولے ،لیکن یہ سب تو حرام ہے ۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا بالکل حرام ہے لیکن ان سب کو آخر کون بتائے کہ یہ حرام ہے ؟ کیونکہ جن کی ذمہ داری ہے ان کی بھی اکثریت خود اسی نہر سے فائدہ اٹھا رہی ہے ۔ بدھو میاں افسردگی سے کہنے لگے کیا ہماری اکثریت صرف دنیا کمانے کے چکر میں اپنی آخرت کو بھول نہیں بیٹھی ہے ؟ ہم اس رشوت کی ، چوری کی ، بدعنوانی کی ، منافع خوری کی نہر سے فائدہ اٹھا کر کیسے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اس حرام پیسے پر پلی ہماری اگلی نسل بہتر انسان کی شکل میں ہو گی ؟ یا پھر شائد ہم یہ توقع کر رہے ہیں کہ نئی نسل کو وہ ہنر سکھا سکیں کہ وہ اس نہر سے موجودہ نسل سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے گر سیکھ کر آئے ۔ بدھو میاں سر جھکائے بولتے جا رہے ہیں ، اس چاروں طرف بہتی دودھ کی نہر جو جہنم کی طرف بلاتی ایک جگاڑ ہے ، سے خود کو بچانا ہی تقوی کا اصل معیار ہے ۔ کاش ہم سمجھ جائیں کہ ہماری اصل کامیابی آخرت میں اچھے انجام پر منحصر ہے وگرنہ
~ سب ٹھاٹھ دھرا رہ جائے گا ۔۔۔۔ جب لاد چلے کا بنجارہ


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International