Today ePaper
Rahbar e Kisan International

دیہاتی بمقابلہ شہری

Articles , Snippets , / Wednesday, September 24th, 2025

راجا ناصر محمود – قطر

آج کل شہری اور دیہاتی زندگی میں تقسیم بڑی واضح لیکن نہایت دلچسپ ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف شہر اپنے تجارتی مراکز، شاپنگ مالز، ریسٹورانٹس اور تیزرفتار موٹر کاروں سے جدید طرزِ زندگی کی جھلک پیش کرتے ہیں تو دوسری طرف دیہات اپنے دلفریب قدرتی مناظر، تازہ آب و ہوا اور سادہ و پرُسکون زندگی کے ساتھ قدیم روایات کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔ شہری عموماً تنہائی پسند، خشک مزاج اور سڑیل جب کہ دیہاتی مخولیے اور گپ شپ کے ٹھرکی مانے جانے ہیں۔ شہروں میں تعلیم عام ہے اور پڑھے لکھے افراد کو کوئی مقام حاصل کرنے کے لئے کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔ اِس کے برعکس دیہاتوں میں کسی بھی نوجوان کو محض چند جماعتیں پاس کرنے کے بعد بابو کا لقب مل جاتا ہے اور یوں وُہ لوگوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔ دیہاتی دوسرے لوگوں کے تمام معاملات کی خبر رکھنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ گاؤں میں ہر دیوار کے کان ہوتے ہیں۔ ایک گھر کی خبر ٹین جی کی بدولت چند لمحوں میں پورے گاؤں میں پھیل جاتی ہے۔ خوش قسمتی سے یہ ٹین جی ( دس افراد ) ہر گاؤں میں لگائی بجھائی اور افواہ سازی کو اپنا فریضہ سمجھ کر پھیلاتے ہیں۔ شہروں میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آتی ہیں جب کہ دیہاتوں میں کنویں ، بوہڑ کے درخت اور بھینسوں کے سویمنگ پول، چھپڑ سالہا سال تک جوں کے توں رہتے ہیں۔ دیہاتی دیسی خوراک کے پلے ہوئے تگڑے جسم اور کھُلےدل کے مالک ہوتے ہیں جنھیں دیکھ کرشہری نہ صرف جلتے ہیں بلکہ اُنھیں پینڈو کہہ کر اپنی حسد کی آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں۔ شہروں میں انواع و اقسام کی ماڈرن ڈشز اور کھانوں کی موجودگی کے باوجود دیسی کھابوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ لہٰذا آپا زبیدہ مرحومہ کے جانشین محبوب خان، فائزہ اقبال، اسامہ اصغر، زنیرہ عامراور سارہ رفیق وغیرہ سب مل کر بھی شہریوں کو دال ساگ، مکئ کی روٹی ، دیسی گھی کی پنجیری ، جلیبی، پکوڑے اور سموسوں کا اب تک کوئی خاطر خواہ توڑ پیش نہیں کر سکے۔ کھانوں کے حوالے سے دیہاتیوں اور شہریوں میں البتہ ایک قدر مشترک بھی ہے اور وُہ یہ کہ شادی بیاہ کے موقع پر یہ دونوں چیتے جیسی پھُرتی کے ساتھ ایک ہی طرح سے کھانوں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی خوراک کی نالی کو گلے تک بھرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔

دیہاتوں میں بڑے بزرگ آخردم تک خاندان کے سربراہ کا رتبہ سنبھالے رکھتے ہیں جب کہ شہروں میں اولڈ ہاؤسز کا وجود اُن کے لیے ڈراؤنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ دیہاتوں میں پہلوان اور گبھرو جوان نظر آتے ہیں تو شہروں میں ممی ڈیڈی، چِکنے اور برگر فیملیز کے نمائندے اپنے جلوے دکھاتے ہیں۔ دیہاتی اَلڑ مٹیاریں اپنے فطری حُسن اور خوبصورتی پر ناز کرتی ہیں۔ تیل ، کنگھی شیشہ، اخروٹ کا سکڑا اور سُرخی پاؤڈر کو اپنی کُل کائنات سمجھتی ہیں جب کہ شہروں کے بیوٹی پارلرز میں بیوٹیشینز کئی طرح کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر رات دِن کھُوٹے کو کھَرے میں بدلنے کی تگ و دو میں مصروف رہتی ہیں۔ اب یہ بیوٹی پارلر باقاعدہ طور پر ایک سائنس لیب کا روپ دھار چکے ہیں جن کے تیارکردہ چہرے وقتی ہی سہی پر اپنی لاجواب چمک دمک سے آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔ شہر میں کام کاج نہ کرنے والے شخص کو بیروزگاری کا طعنہ ملتا ہے لیکن دیہاتوں میں ویلے مستنڈوں کی اپنی ایک الگ شان ہوتی ہے۔ یہ ہر خوشی غمی میں ہراول دستے کا کام کرتے ہیں اور اپنی رضاکارانہ خدمات کے بدلے میں خُوب داد حاصل کرتے ہیں۔ خوشی غمی والے گھروں میں یہ بِن بلائے سب سے پہلے پہنچتے ہیں اور آخری مہمان کے جانے کے بعد وہاں سے بادلِ ناخواستہ لوٹتے ہیں۔

دیہاتیوں اور شہریوں کے زندگی گذارنے کے اپنے اپنے طور طریقے اور رسم و رواج ہیں۔ شہری دیہاتیوں کو کم عقل، جھگڑالو اور توہم پرست سمجھتے ہیں، جواباً وُہ شہریوں کو بزدل، خود غرض اور مادہ پرست ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ دہیاتوں میں رات کو جلدی سونا اورصبح جلدی اُٹھنا ایک معمول ہے جب کہ شہروں میں رات کو دیر تک جاگنا اور صبح دیر سے اُٹھنا امارت اور خوش بختی کی علامت کے علاوہ ایک قابلِ فخر کارنامہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ شہروں میں گھر کے تمام افراد بلا تفریق کسی قابلیت یا کارکردگی کے اپنے اپنے کمروں میں اکیلے سونے کے مستحق سمجھے جاتے ہیں۔ جب کہ گاؤں میں رات کو گھر کے تمام افراد میں صرف فائیو سٹار ریٹنگ رکھنے والے خوش نصیب کو صحن میں پنکھے کے سامنے پہلی چارپائی پر سونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے جب کہ گھر میں سب سے زیادہ منفی ریٹنگ والے فرد کو قطار میں لگائی گئ آخری چارپائی پر رات گزارنی پڑتی ہے جہاں پنکھے کی ہوا کے ساتھ کئ اور ہوائیں بھی اُس کا رُخ کرتی ہیں۔ دیہاتی صبح سویرے اُٹھ کر کھیت کھلیانوں میں اپنے کام کاج میں جُت جاتے ہیں اور دن بھر وہاں واک کرتے رہتے ہیں جب کہ شہری کام کاج سے فارغ ہو کرایک آدھ گھنٹے کی واک کے لیے جوگر ، ٹریک سوٹ پہن کر کسی قریبی پارک کا رخ کرتے ہیں۔ دیہاتیوں کی دن بھر کی واک اُنھیں اُن تمام بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہیں جن کا شہری اکثر شکار ہو جاتے ہیں۔ حقیقت میں جس طرح عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں بعینہی دیہاتی اور شہری بھی مُلک کی تعمیر و ترقی کے دو بازو ہیں جن میں باہمی محبت، اخوت اور احترام کا رشتہ ہر صورت قائم رہنا چاہیے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International