Today ePaper
Rahbar e Kisan International

راوی کے سسکتے کناروں پہ

Articles , Snippets , / Wednesday, December 31st, 2025

rki.news

بوسیدہ عمارات، تباہ شدہ بستیاں ،روتے سسکتے ہوے لوگ ،ننگے پیٹ اور ٹوٹے ہوے جوتوں میں ملبوس بھوکے پیٹ کے ساتھ بھاگتے دوڑتے بچے. موت سے چند لمحے پہلے کی خاموشی اور موت کے بعد زور زور سے کیے جانے والے بین، دوہاییاں، سیاپے ،سسکیاں اور بن آواز کے رونے دھونے، موت کو گلے لگانے کے بعد کا سناٹا اور بچھڑ کے زندہ رہنے کا سناٹا سارے ہی سناٹے جان کنی کے عذاب جیسے ہیں، اور کسی بیٹی کی رخصتی کے بعد ماما بابا کے رونے کے ساتھ ساتھ گھر کے در و دیوار پہ اتر آنے والا خوف اور اداسی، بیٹیا کا سونا بستر اور روتی ہوی گڑیا کا سوگ، شام کی اداسی کا سب سے گلے مل کے رونا اور جمعتہ المبارک کی شام کو لحد میں اتارے گءی نوجوان میت کے سوگ میں پوری بستی پہ اتارا گیا سناٹا. یہ سناٹا ،اندھیرا،موت کا احساس اور موت کے گلے ملنا اتنا خوفناک احساس کیوں ہے؟
موت سے مل کے یہ بتایں گے
جینا اچھا تھا یا کہ مر جانا
اور ہم سب ایک لمبی قطار میں کھڑے دھیمی چال چلتے ہوے آہستہ آہستہ اپنے انجام کی جانب روانہ ہیں اور علامہ اقبال کی مشہور زمانہ نظم ماں کا خواب
وہ گھایل تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دیا اس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا
تو میری روح کانپ جاتی ہے جب میں اپنے گرد و نواح میں دیکھتی ہوں کہ ہم سب ہی گھایل ہیں اور سب ہی ڈگمگا رہے ہیں اور ہمارے دیے بھی در حقیقت بجھ چکے ہیں ہم بس ویسے ہی دنیا دکھاوے کو پہنتے اوڑھتے اور ہنستے گاتے ہیں کہ کہیں لوگ ہم پہ بھی انگلی نہ اٹھا دیں،لوگ بھی ہم پہ بھی لکیر کے فقیر ہونے کا لیبل نہ لگا دیں، لوگ بھی ہمیں دقیا نوسی اولڈ فیشنڈ نہ ڈکلییر کر دیں مگر سچ تو یہی ہے کہ ہم، میں اور آپ بھلے جتنے بھی ماڈرن، پڑھے لکھے،اپ ٹو ڈیٹ ہو جایں ہم وقت کی اس چلمن کو پار نہیں کر سکتے جسے زمانہ کہتے ہیں جی ہاں زمانہ جو ہمیشہ اپنی منواتا ہے جو اس غرور میں رہتا ہے کہ وہی بادشاہ ہے اور درمیانی عمر کے عمر رسیدہ لوگوں کو ہمیشہ کھڈے لاین لگا دیتا ہے اور وہ بیچارے جھکی کمر اور کم نگاہی کے ساتھ اپنی خفت مٹاتے مٹاتے ہی غم کی سیاہ لکیر میں مٹی کے ساتھ ہی مٹی ہو جاتے ہیں. اور غرور تو قانون کی طرح سدا ہی اندھا ہوتا ہے.
اے دنیا داری کے دھندو
ذرا غور کرو
ذرا تھم جاو
اک سانس کا قصہ ہے سارا
اب اتنا نہ تم اتراو
اک اور کفن کا قصہ ہے
اک اور قبر کی تیاری یے
اے موت تیرے صدقے جاوں
یہ جیون کتنا بھاری ہے
اور جیون ہی سے یاد آیا کہ جیون بھاری تو سب ہی کے لیے ہوتا ہے مگر کچھ لوگوں کے لیے تو اتنا بھاری ہوتا ہے کہ مانو کسی لوہے کے پہاڑ جیسا وزنی ہوتا ہے اور وہ اس وزنی پہاڑ کے نیچے سے نکلنے کا سوچ ہی نہیں سکتے.
یہی زندگی ہے اور یہی زندگی کا چلن ہم سب کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پہ کھوپے چڑھاے اللہ جانے کس منزل کی کھوج میں اپنے آپ کو بھی گنوا لیتے ہیں اور پھر اپنی تہی دامانی کا واویلا کرتے ہیں شام سے بھاگتے ہیں اور ان پیاروں کو کھو جتے رہتے ہیں جن کا تو وجود ہی نہیں ہوتا
شام سے ڈرتے تھے
کتنا شام سے ڈرتے تھے
جیون نام سے ڈرتے تھے
ہم شیدائی میلوں کے
دنیا کے جھمیلوں کے
ہر بے نام سے ڈرتے تھے
ادھورے کام سے ڈرتے تھے
کبھی شام ڈھلے کسی قبرستان کی ویرانی کو جا کے ما پیے گا آپ اپنی سانسوں کی روانی کو جاری نہیں رکھ پاءیں گے قبریں، لگڑ بگڑ کے قصے، آسیب زدہ حویلیاں اور ان آسیب زدہ حویلیوں پہ قابض مخلوق ہمیں ڈرانے کے لیے کافی ہے مگر مجھے ہمیشہ اجڑے گھروندوں، روتی آنکھوں، ویران بستیوں، ٹنڈ منڈ درختوں اور خشک ہوتے دریاوں نے ڈرایا
کوی سناٹا سا سناٹا ہے
تیری سونی حویلی کا دالان
پہلے لوگوں سے بھرا رہتا تھا
کءی رشتوں سے سجا رہتا تھا
نقری قہقہوں سے رونق تھی
اب کوئی داستاں سناتا نہیں
رونے والوں کو بھی ہنساتا نہیں
جانے کس دیس جا کے بیٹھے ہیں
تیرا دالان سجانے والے
رونے والوں کو ہنسانے والے
تو زندگی، قہقہے، مسکراہٹیں، خوشیاں اور غم دنیا کے میٹھے میوے ہیں، زندگی کا حسن ہیں اور جب یہ سب کچھ رخصت ہو جاتا ہے تو پیچھے موت کا سا سناٹا رہ جاتا ہے. یادوں کے چوباروں میں آنسوؤں کی نمی کچھ کچھ تو جینے کی وجہ بن جاتی ہے مگر جینے میں وہ حدت اور حلاوت نہیں رہتی جس کی کھوج میں ہم سب بگٹٹ بھاگے پھرتے ہیں.
اور جدائی ہمیشہ جان لیوا ہی ہوتی ہے توبہ شکن ہوتی ہے.
کبھی میرا راوی میرے لاہور کی شان ہوتا تھا. پھر لاہور کے لوگوں کی کج ادایوں سے گھبرا کے دریا نے شہر کو چھوڑ دیا اپنا رستہ موڑ لیا کبھی یہ پانی سے بھرا رہتا تھا یہاں مغلیہ بادشاہت کا راج تھا شہزادے اور شہزادیاں باغات کی سیر کرتے راوی میں کشتی رانی کرتے اور کامران کی بارہ دری پہ شرارت کا اک جہان تھا قہقہوں کی برسات تھی مگر پھر سیدھے سادھے اور دل کے ریس مغلیہ شہنشاہوں کو لوٹنے کے لیے کایاں انگریز آ گءے اور ہر شے پہ قابض ہو گئے کہ بہادر شاہ ظفر کو چار سالہ جلا وطنی کے ساتھ اپنے بیٹوں کے کٹے ہوے سر دیکھنے کی اذیت کے پہاڑ تلے بھی گزرنا پڑا. اور آنسوؤں کے انبار تلے یہ کہنا پڑا
کتنا ہے بدنصیب ظفر کہ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوے یار میں.
تو وہ راوی جہاں زندگی کی بہاریں تھیں پھولوں کی مہکا ریں تھیں وہ راوی ایک دشمن کی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا اور اب تو مجھے راوی اتنا ہی خشک اور بنجر دکھای دیتا ہے جیسے کوی صحرا کہیں کہیں چند بوند پانی بھی اپنی جھلک دکھا دیتا ہے تو مجھے چونکہ اپنے کام کے سلسلے میں دن میں کم از کم. دو بار راوی کو پار کرنا پڑتا ہے تو مجھے راوی کی سسکیاں اور نالے بڑے قریب سے سنای دیتے ہیں لاہور سے نکلتے ہوئے ماہر انجینیرز نے پل کی دیوار اتنی اونچی رکھ دی ہے کہ دریا کا نظارہ ہی آنکھوں سے اوجھل کر دیا ہے، کتنا قابل انجینیر تھا جس نے روتے سسکتے راوی کو عوام کی نظروں سے اوجھل کرنے کی ایک انتہائی بھونڈی کوشش کی ہے ہاں البتہ لاہور کو وآپس آتے ہوے پل کی دیوار کسی عقل مند نے مناسب رکھ چھوڑی ہے تو برباد راوی کا نظارہ اچھے سے کیا جا سکتا ہے، راوی کی دونوں سایڈوں پہ رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس ہر عمر کی بچیاں، لڑکے اور عورتیں گوشت کی تھیلیاں لوگوں کے سروں پہ سے وار کے صدقے کے پیسے بٹور کے راوی میں اچھال دیتے ہیں جسے اچکنے کے لیے سینکڑوں چیلیں ہمہ وقت تیار رہتی ہیں ہاں مگر بوڑھا راوی رو رو کے اتنا بے بس ہو چکا ہے کہ اسے اب اس صدقے خیرات سے بھی کچھ لینا دینا نہیں
راوی کے سسکتے کناروں پہ
شہر لاہور کی بہاروں سے
شاہی مسجد کے سب میناروں سے
میں نے اکثر ہی پوچھا ہے پونم
جانے والوں کو کس کی جلدی ہے
جانے والے کیوں اتنے بے حس ہیں
جانے والے کیوں نہیں سنتے ہیں
ہم بھی روے تھے ہم بھی سسکے تھے
یونہی اک روز یہ سوال کیا
راوی کے سسکتے کناروں سے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Sabrina. Sakuraza@hotmail.com. Com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

© 2025
Rahbar International