تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
یوکرین اور روس کی جنگ اختتام کی طرف بڑھ رہی ہےاور اس کا فیصلہ یوکرین کی بجائے امریکہ اور روس کر رہے ہیں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یوکرین جنگ بندی پر راضی ہے یا نہیں؟یوکرین واضح کرچکا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر جنگ بندی کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔یہاں تک کہ یورپی یونین کو بھی نظر انداز کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔روس صرف یوکرین سے جنگ نہیں لڑ رہا تھا بلکہ اس کا مقابلہ بہت بڑے اتحاد سے تھا۔امریکہ اور اتحادی یوکرین کی امداد کر رہے تھے،مگر اب امریکہ نےروس کے ساتھ تعلقات بڑھانے شروع کر دیے ہیں۔حال ہی میں ریاض میں امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیواور روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے درمیان ملاقات بھی ہو چکی ہے۔یہ ملاقات ساڑھے چار گھنٹوں پر مشتمل تھی اور یقینا مزیدملاقاتیں بھی ہوئی ہوں گی۔ملاقات کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے صحافیوں سے گفتگو کرتےکہا کہ آج ہونے والی بات چیت بہت ہی مفید تھی۔روسی وزیر خارجہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روس نیٹو میں کسی قسم کی توسیع اور اس میں یوکرین کی شمولیت کو روس اپنے خلاف خطرہ سمجھتا ہے۔یوکرین میں امن فوج کی تعیناتی کو روس کسی صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔سرگئی کا کہنا تھا کہ نیٹو افواج،یورپی یونین کےجھنڈےتلے یا کسی اورکےزیرنگرانی فوج کی تعیناتی ناقابل قبول ہوگی۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ یوکرین اور یورپی یونین سمیت کسی کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔یورپی یونین اور یوکرین کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان کے بغیرکیے جانے والے مذاکرات ان کے مفادات کو سخت نقصان پہنچائیں گے۔یوکرین کو نظر انداز کرنا،اس بات کی علامت ہوگی کہ یوکرین کی شکست تسلیم کر لی گئی ہے۔سعودی عرب میں امریکی اور روسی صدر کے درمیان ملاقات کا بھی امکان ہےاور یہ ملاقات چند دن کے اندر ہی ہونے والی ہے۔
یوکرین کو اچھی طرح علم ہے کہ امریکہ جیسے بڑےاتحادی کے بغیر وہ جنگ نہیں جیت سکتا،بلکہ چند دن تک مقابلہ ہی نہیں کر سکتا،حالانکہ یہ جنگ کافی عرصے سے جاری ہے۔ولادیمیر زیلنسکی نے کہاہے کہ ان کومذاکرات کے لیےمدعو بھی نہیں کیا گیا۔جوابی طور پر امریکی صدرنے کہا کہ یوکرین بہت ہی پہلے اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے ڈیل کر سکتا تھا۔یوکرین کو اس بات کا احساس تھا کہ امریکہ اور بڑا اتحاد اس کا ساتھ دے رہا ہے۔اب امریکہ روس کی طرف ہاتھ بڑھا رہا ہے،تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوکرین روس کے قبضہ میں چلا جائے گا۔امریکہ کا روس کی طرف ہاتھ بڑھانےسےصرف یوکرین کے لیےنہیں،بلکہ یورپی یونین کے لیے بھی پریشانی بڑھ چکی ہے۔روس اور امریکہ اتحاد بہت سے ممالک کے لیےخطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔یوکرین کے بعد نیٹو کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور اس کااظہار زیلنسکی بھی کر چکے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ اس جنگ کے خاتمہ کی ذمہ داری اپنے قریبی دوست سٹیووٹکوف کودے چکے ہیں۔سٹیو ایک ارب پتی بزنس ٹائیکون ہیں اور ان کا کوئی سفارتی پس منظر نہیں۔وٹکوف نےاسرائیل حماس جنگ بندی میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ نےوٹکوف کو تہران کے ساتھ جوہری مذاکرات شروع کرنے اور اس کے ذریعے خطے میں جنگ کو روکنے کی ذمہ داری بھی دی تھی۔اس جنگ بندی کو روکنے کے لیے امریکہ کی طرف سےمذاکراتی ٹیم بھی تقریبا تشکیل پا چکی ہے۔اس بات کا امکان بڑھ چکا ہے کہ فوری طور پر مذاکرات شروع ہو جائیں اور جنگ بندی ہو جائے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یوکرین کے بغیر مذاکرات ہوتے ہیں،تو اس صورت میں یوکرین کیا کرے گا؟کیا یہ مذکرات یوکرین بھی قبول کرے گا یا نہیں؟دوسرے اتحادی کیا لائحہ عمل تشکیل دیں گے؟یوکرین کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کی اتنی صلاحیت نہیں کہ امریکہ یا روس کے خلاف کوئی جارحانہ قدم اٹھا سکے۔نیٹو بھی امریکہ اور روس اتحاد کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوگا۔ظاہر بات ہے کہ یوکرین ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جائے گااور یہ اقدام امریکہ کی جانب سے روس کے لیے ایک بڑا تحفہ ہوگا۔یورپی یونین بھی کوشش کرے گا کہ اس اتحاد میں شامل ہو جائے یا کم از کم اس اتحاد کے خطرے سے اپنے آپ کو محفوظ کر لے۔روس کسی صورت میں نیٹو کواپنے اتحاد میں شامل نہیں ہونے دے گا۔روسی پالیسی یہی ہوگی کہ اپنی برتری قائم رکھی جائے۔اس صورت میں ماسکو،نیٹو یا کسی ملک کو اتحاد میں شامل ہونے کی اجازت دے سکتا ہے جب وہ روس کےزیر تحت کام کرے۔روس واضح کر چکا ہے کہ نیٹو یا کسی قسم کی فوج کی تعنیاتی قابل قبول نہیں ہوگی۔یہ بات توطے ہو چکی ہوگی کہ روس کی شرائط تسلیم کی جائیں گی۔اب ریاض میں جو ملاقات ہوئی ہے،اس کا مطلب یہ نہیں کہ روس شکست خوردہ ہے یاکمزور ہو چکا ہے،بلکہ امریکہ کی طرف سےپرجوش دعوت دی گئی ہے۔روس کی برتری واضح نظرآرہی ہےکیونکہ مضبوط فریق خود دعوت دے کرمذاکرات کر رہا ہے۔امریکی مضبوطی ہر ایک اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ یوکرین واویلا کر رہا ہے کہ امریکہ کا نکلنا ہی اس کے لیے شکست کا سبب بن جائے گا۔روس پر لگائی گئی پابندیاں اگر ہٹ جاتی ہیں تو روس عالمی پوزیشن آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ویسے بھی امریکہ کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کو روس کی جانب سےخاص اہمیت نہیں دی جا رہی۔
اس جنگ بندی کے مذاکرات ایک سبق بھی دے رہے ہیں کہ ایک کمزور کی طاقتور کے سامنے کوئی وقعت نہیں ہوتی۔جنگ روس اور یوکرین لڑ رہے ہیں لیکن اس کے فیصلےکوئی اور کر رہا ہے۔چین بھی ان حالات پر نظر رکھ رہا ہے۔یہ اتحاد جہاں یورپی یونین اور دوسرے اتحادیوں کوخطرات سے دوچار کر رہا ہے،وہاں چین کے لیے بھی سخت خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ان مذاکرات میں سعودی عرب کی حیثیت بھی واضح ہو رہی ہے۔ممکنہ اتحاد میں سعودی عرب،قطراور اسرائیل بھی شامل ہو سکتے ہیں۔مشرق وسطی کے حالات پر گہری نظر رکھنے والےشاید مایوسی کا شکار ہو رہے ہوں کیونکہ یہ اتحاد مشرق وسطی میں امن لانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ہو سکتا ہےان جنگ بندی مذاکرات کے لیے یوکرین اور یورپی یونین کو بھی مدعو کر لیا جائےکیونکہ تمام فریقین مل کر بہترحل نکال سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ذریعے بھی بہتری کی طرف بڑھاجا سکتا ہے۔اس بات کا افسوس بھی ہوتا ہےکہ غزہ،لبنان،شام اورکشمیرمیں حالات کو بہتر کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔اس کےعلاوہ بھی کئی علاقوں میں انتشار پھیلا ہوا ہے،اس انتشار کو بھی ختم کیا جائے۔
Leave a Reply