میں خود بھی ایک ادیب ہی ہوں سن رسیدہ جس کی چوکھاٹوں کو دیمک کھا چکی ہے، ایک ایسا مکان جس کی بنیادوں میں کءی برسوں سے پڑنے والا پانی نہ صرف آلودہ ہو کے قرب و جوار میں تعفن پھیلا رہا ہے بلکہ گھر کی سلامتی کا بھی سوا ستیاناس مارے بیٹھا ہے بس کیا کیہے اور کیا نہ کہیے مگر بات کچھ یوں ہے ناں کہ کچھ باتیں کہنی سانسوں کی روانی کے لیے اشد ضروری ہو جاتی ہیں. تو میں کہہ رہا تھا وقت کے وزنی پہیے جہاں میری ریڑھ کی ہڈی کو چورا چورا کرتے ہوئے میری کمر کو خم رسیدہ کر گیے ہیں اور آنکھوں کے دیے اتنے دھندلا چکے ہیں کہ دور اور نزدیک
دونوں ہی چشمے میرے لیے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں سر کے بال خاصے کھچڑی نما ہو چکے ہیں، ہای بلڈ پریشر، شوگر اور گھنٹیا نے مل جل کے میری مت کچھ ایسے مار دی ہے کہ میں تو سچ مچ اب اپنے ہونے پہ بھی شرمندگی محسوس کرتا ہوں مگر آپ سب تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ زندگی اور موت تو اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے ہم انسانوں کی کیا اوقات کہ اس پاک ذات کے مقرر کردہ داءیروں سے ایک ملی میٹر بھی انحراف کر پاءیں یہ پھر کرنے کا سوچ ہی سکیں.تو میں بھی ایسے ہی اپنی ٹانگیں اور سانسیں گھسیٹتا پھر رہا ہوں گزرے ہوے شب و روز کا کیا حساب کتاب کروں کہ حساب کبھی بھی میرا مضمون نہیں رہا ہاں اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ فٹ پاتھ سے زندگی شروع کرنے والے کو مالک نے اپنا مکان، چھوٹی سی گاڑی اور ہمہ وقت بک بک کرنے والی ایک چھکڑا نما دو من کی بیوی بڑی فراغت سے عطا کر رکھی ہے دو بچے ہیں جو تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد اپنی اپنی شادی شدہ زندگیوں سے خوب لطف اندوز ہو رہے ہیں. تو گھر نامی پنجرے میں بچ جاتا ہوں میں اور میری شکی وہمی زوجہ مختیار بیگم. کہتے ہیں ناں کہ نام کے اثرات شخصیت پہ بڑا اثر ڈالتے ہیں تو مختیار بیگم معمولی تعلیم اور واجبی شکل و صورت اور ہاتھی جیسے ڈیل ڈول کے ساتھ سچ میں بڑی ہی با اختیار ہیں صبح ان کی شیر جیسی دھاڑ کے ساتھ طلوع ہوتی ہے اور رات ان کے خطرناک خراٹوں کے سنگ جاگتی رہتی ہے ارے مختیار بیگم کی رات تو نرم نرم بستر پہ خواب خرگوش کے مزے لیے گزرتی ہے کیونکہ میڈیکل سائنس کے مطابق خراٹے نیند کے اس حصے میں دھمال ڈالتے ہیں جب انسان گہری نیند میں ہوتا ہے. بے فکر مرا ہوا جب اس کی گردن اور سر کے درمیان میں پاے جانے والے soft tissues اس کے نتھنے اور نرخرے کے بیچ سانسوں کی روانی میں کچھ رکاوٹ ڈالتے ہیں تو رات کے سیاہ گھپ اندھیروں میں خراٹوں کا شور مچ جاتا ہے جو خراٹے پیدا کرنے والے کے بجائے خراٹے سننے والے کے لیے عذاب بن جاتا ہے اور میری بیگم مختیار بیبی کے تو خراٹے بھی بڑے ہی با اختیار اور گرجدار ہیں اور آج میں اپ سب کو اپنے دل کی بات بتا رہا ہوں کہ یہ گرجدار خراٹے میری طبع نازک پہ پہاڑ بن کے گرتے ہیں اور میں کروٹیں بدل بدل کے رات آنکھوں میں کاٹ دیتا ہوں اب آپ کہتے ہوں گے کہ میں تو ایک ادیب بھی ہوں تو پھر insomnia کے عذاب کو میں اپنے تخلیقی عمل کے ذریعے مات کیوں نہیں دیتا مطلب خراٹوں کے شور شراطے سے پرے دوسرے کمرے یعنی سٹڈی روم میں جا کے تخلیق کے عمل میں کوی حصہ کیوں نہیں ڈالتا. میں اس رت جگے میں کوئی تحریر، کوی مضمون، کوی افسانہ، کوی تنقیدی کام، کیوں نہیں کرتا کوئی برسوں پرانا پڑھا ہوا ناول دوبارہ سے پڑھے جانے کی خواہش کے باوجود کیوں نہیں پڑھتا اپنے پسندیدہ میوزک میں سے کوئی من پسند گانا کیوں نہیں سنتا.حالانکہ پرانے انڈین اور پاکستانی گانوں کے سیکڑوں ٹیپ ریکارڈز میرے پاس پڑے پڑے سنے جانے کے انتظار میں گھس چکے ہیں کءی ناول اور افسانے میرے انتظار میں بدشکل اور بوڑھے ہو چکے ہیں وہ تمام کتابیں بھی پڑھنا چاہتا ہوں جو نیے اور پرانے ادیب ایک بڑا ادیب ہونے کے ناتے مجھے مختلف تقاریب میں مجھے دیتے رہتے ہیں یا پھر میرے گھر بذریعہ ڈاک مجھے بھیجتے رہتے ہیں
اب آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ اس جدید دور میں جہاں مرد تو مرد عورتیں بھی اپنی سوچ اور عمل میں نہ صرف آزاد ہیں بلکہ پورے اعتماد کے ساتھ اپنے ایجنڈے اور نظریات پہ پورے شدومد اور چابکدستی سے عمل پیرا بھی ہیں تو میرے ساتھ یہ کالے پانی کے قیدیوں والا سلوک کس بنا پہ اور میں یہ عمر قید راضی برضا بھگتنے کے لیے کیوں تیار ہوں کیوں آمادہ خیال ہوں. تو میں آپ کو تھوڑا سا اپنے بارے میں بتا دوں کہ میں شروع ہی سے نزاکت پسند اور نفاست پسند رہا ہوں لڑکپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوقین رہا ہوں. کالج کی لٹریری سوسائٹی کا صدر، انٹر کالجز، انٹر سٹیز اور ملکی سطح پہ ہونے والی تمام ادبی سر گرمیوں میں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا. اور انھی ادبی محفلوں میں میری ملاقات اس نازنین سے ہوی جو خود بھی بہت مشہور لکھاری تھی اس کی ہرنی جیسی آنکھوں میں ایک عجب طرح کا سوز اور نمی تھی بالکل ایسے جیسے کسی سمندر کی بپھری ہوی لہریں سمندر کے کناروں سے ٹکرانے کے لیے بے تاب ہوں اس کا نکلتا ہوا قد اور مست چال اسے ہجوم میں نمایاں کرتی تھی. اس کی صبیح رنگت اور من موہنے نقوش اسے اس دنیا کی حسین ترین ناری بتاتے تھے اور میں اسے دیکھ کے رب سے خواہ مخواہ ہی شکوہ کناں ہو جاتا کہ مالک کیوں مجھے منحنی جسامت، گہرے سانولے رنگ اور کانپتی ہوی آواز کے ساتھ آنکھوں میں بڑے بڑے خواب دے کر اس دنیا میں بھیج دیا. مالک مجھے بھی تو سالار کی طرح اونچا لمبا، تگڑا، گرجدار آواز والا خوبصورت اور امیر جوان بنا کے اس دنیا میں کسے وڈیرے کے گھر پیدا کر سکتا تھا ناں کہ نازنین جیسی حسین ترین لڑکی بھی سالار کی محبت میں اس قدر گھایل ہوی کہ تیسرے سمسٹر میں ہی دونوں کی دھوم دھام سے شادی ہو گءی. اور میرے جیسے حرماں نصیب راتوں کو آسمان پہ تارے ہی گنتے رہ گیے. ہمارے نصیبوں میں خالہ زاد مختیار بیبی ہی لکھی گءی تھی چلو یہاں تک بھی ٹھیک تھا کیونکہ ہم جیسے منحنی ادیب نے بھی اندر کھاتے ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کی شعبہ اردو کی پروفیسر کو اپنا دیوانہ بنا ہی رکھا تھا اب آپ سے کیا پردہ مختیار بیبی کے عقوبت خانے سے نکلنے کے بعد چند گھڑیاں اپنی مرضی کی گزارنا تو میرا حق تھا ناں وہ تھانیدارنی اور میں سزاے موت کا مجرم اصل میں ڈاکٹر ساجدہ نچلے متوسط طبقے کی اکلوتی پی ایچ ڈی تھی درمیانہ قد، معمولی نقوش اور سفید رنگت والی ساجدہ جس کے چہرے پہ پھلبہری کے نشانات کا ڈیرہ بھی خاصا بڑا تھا کے خواب بھی میری طرح بہت اونچے تھے تو رو دھو کے پروفیسرز کے گوڈے گٹے پکڑ کے اسے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے ساتھ ساتھ اچھی بھلی نوکری تو مل گءی مگر اس سارے گورکھ دھندے میں اس کی شادی کی عمر نکل گءی اور وہ کسی پکے ہوے پھل کی طرح میری گود میں آ گری جی ہاں کچھ ایسا ہی ہوا میں اس وقت اردو ادب کا نامور لکھاری ہوں میرے لکھے ہوے کا ایک مقام ہے ادب میں اور میں بیچ میں سے تھوڑا بہت اپنی اس واحد اور اکلوتی سہیلی ڈاکٹر ساجدہ کو بھی لکھ کے دیتا رہتا ہوں اس طرح ہم دونوں کے ادبی محفلوں میں آنے جانے کا جواز بنا رہتا ہے کیا فرق پڑتا ہے اگر میں چار کتابیں اپنی لکھتا ہوں تو ایک آدھی کتاب اپنی سہیلی ڈاکٹر ساجدہ کے لیے بھی لکھ دیتا ہوں وہ بھی ایک تیسرے درجے کی لکھاری کے طور پہ ادب کی دنیا میں جانی پہچانی جاتی ہے. میں اس سے پیار نہیں کرتا بس اپنے وقت کو رنگین کرتا ہوں اور وہ خوشی خوشی میرے ساتھ ہر محفل میں چل پڑتی ہے کتنی بے وقوف عورت ہے ناں اس بڑی عمر میں بھی میرے جیسے شادی شدہ مرد کی محبت پہ بھروسہ کر کے اپنے کردار کو لیرو لیر کیے بیٹھی ہے پہلے درجے کے لکھاری کا کردار تو ملاحظہ فرمائیے گا. یہ تقریباً سات آٹھ برس پرانی بات ہے میں ڈاکٹر ساجدہ کے ایک ناول کو حتمی شکل دے رہا تھا اور میرا لیپ ٹاپ کچھ گڑ بڑ کر رہا تھا تو میں نے وقت کی بچت کرنے کے خیال سے اپنا لیپ ٹاپ اپنے بیٹے فہد کو دے دیا اس میں ساجدہ کے میرے نام لکھے ہوئے چند محبت نامے وایرل ہو گیے باقی تو جو میرا تماشا بنا سو بنا اس دن کے بعد سے نہ میں اپنے بچوں سے آنکھ ملا سکتا ہوں اور نہ بیوی سے. بیوی کا رعب و دبدبہ مزید بڑھ گیا ہے میں اب رات کو اپنی ادبی سرگرمیاں چاہ کے بھی جاری نہیں رکھ سکتا ہاں پورا دن میرا ہوتا ہے اس میں میری تھانیدارنی بیوی چاہ کے بھی کچھ نہیں کر پاتی. تو ہوں نہ سر پھرا ادیب ہر طرح کی شعور و آگہی کے ہوتے ہوئے حرام خوری کرنے والا سر پھرا
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com
Leave a Reply