Today ePaper
Rahbar e Kisan International

{(سلامِ صبح مہنگا سودا)۔ ( Sain, patient dado fit aahay )( چَودہ طبق روشن)}

Articles , Snippets , / Thursday, April 24th, 2025

rki.news

بڑے بھیا کی شہر سے باہر نوکری کا ہمیں ایک بڑا فائدہ ہوا۔ چھت پر بنا کمرہ بلا شرکت غیرے ہمارا ہوگیا۔ اسکول کی نوکری اور ٹیوشن، سے فارغ ہوکر ہم 11 بجے رات تک، تھک ہار کر سوجاتے۔ مشاعروں میں شرکت بھی کم ہوگئی تھی۔ لیکن ساڑھے تین بجے اٹھنے کی عادت برقرار تھی۔ چار سے چھ لکھنا پڑھنا اور پھر باہر واک پر چلے جانا معمول تھا۔
ایک روز جیسے ہی کمرے سے نکلے تو نظر بیساختہ سڑک پار بنے ایک گھر کی چھت پر پڑی۔ فاصلے کی وجہ سے صرف چھت کی منڈیر سے ٹکا ایک چہرہ چندے آفتاب چندے ماہتاب یقینا” ہوگا لیکن ہمیں ہلکی سی بدلی کی اوٹ لیے دکھائی دیا۔ ابھی ہم ٹھٹک کر دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک ہاتھ سلامِ صبح کے انداز میں لہرایا جوابا” اور اخلاقا” ہم نے بھی جوابی سلام پہنچادیا۔ اتنی دیر میں وہ چہرہ غائب ہوگیا۔ ہم اتنے فاصلے سے خد و خال کا صحیح اندازہ بھی نہ کرسکے کہ ایک آدھ شعر ہی کہہ ڈالتے۔
اس سلام و جوابی سلام کے سلسلے کو چند روز ہی گزرے تھے کہ ایک صبح چہرہ تو منڈیر سے ٹکا نظر آیا لیکن دستِ سلام ندارد۔ روز پہل اس طرف سے ہوتی تھی آج نہیں تو کیا، یہی سوچ کر اخلاقا” ہم نے ہاتھ اٹھا کر سلام کر ڈالا۔ جواب دینا تو درکنار وہ چہرہ چشمِ زدن میں غائب ہوگیا ہم امید و بیم کی کیفیت میں منتظر تھے کہ سامنے کی اسی چھت کی منڈیر سے ایک بڑی بڑی مونچھوں والا چہرہ طلوع ہوتے نظر آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ مابدولت کو نگاہوں ہی نگاہوں میں کھاجانے کی کوشش کرتا ہم نے نیچے بیٹھ کر جان بچائی۔ تھوڑی دیر بعد اوسان بحال ہونے پر واک کے لیے گھر سے باہر گئے۔ پہلے اچھی طرح اطمینان کرلیا۔ چند آوارہ کتے، سڑک پر جھاڑو لگانے والا جمعدار اور سائیکل پر ایک دودھ والا گھنٹی بجاتے گزرتا نظر آیا۔ حسبِ معمول ہم آدھا گھنٹہ واک کرکے گھر کے نزدیک پہنچے ہی تھے کہ سڑک پار سے ایک لحیم شحیم شخص مونچھوں کو بل دیتا ہمارے قریب پہنچ کر گویا ہوا صاحبزادے ذرا بات سنیے ۔ ہم نے استفہافیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ دل ہمارا “جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو” کی گردان میں مصروف تھا۔۔۔” وہ جی میں نے کہا کیا آپ کے گھر میں آج کل کوئی مہمان آئے ہوئے ہیں”۔۔ جی نہیں، ہم نے خود پر قابو پاتے ہوئے پوچھا، کیوں، کیا بات ہے۔۔”جی وہ کوئی خاص بات نہیں آج بچوں کی والدہ چھت پر تھی تو کسی نے اسے اشارے سے سلام علیک کہا”۔ ظاہر ہے ہمارا ردِ عمل نفی ہی میں تھا۔ “ہمیں نہیں پتہ”۔۔یہ کہہ کر ہم نے گھر کی طرف قدم بڑھادیے۔ “بچوں کی اماں کو خواب آیا ہوگا، سوتے سے چڑھ گئی تھی کوٹھے پر”۔ یہ کہتے ہوئے موصوف بھی اپنے گھر کو چل دیے۔۔
ہم نے اس دن کے بعد سڑک پار نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اور کونسی پہل ہم نے کی تھی، یہی کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دی۔

اسکول کی ملازمت پکی ہونے کی شرط میں آئی اسپیشلسٹ کا میڈیکل سرٹیفکیٹ دینا ضروری تھا۔ سو ایک دن ہم سول ہسپتال آنکھیں ٹیسٹ کروانے پہنچ گئے۔ اپنی باری پر ہم ڈاکٹر کے پاس تھے۔ ڈاکٹر صاحب بڑے تجربہ کار لگ رہے تھے۔ پہلے تو ٹارچ کی مدد سے پپوٹے اٹھا کر آنکھوں میں جھانک جھانک کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ناکامی پر سامنے لگے چارٹ کو پڑھنے کی ہدایت کی۔ آفس میں موجود چپڑاسی نے چارٹ کے سامنے رکھے اسٹول پر یٹھنے کا اشارہ کیا۔ ابھی ڈاکٹر صاحب نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی۔
“ada hena jo test tun wath”
ڈاکٹر صاحب نے چپڑاسی سے ارشاد فرمایا اور فون پر گفتگو میں مصروف ہوگئے۔
صاحب کا چپڑاسی بڑا تجربہ کار تھا۔ ایک آنکھ بند کرواکر ہم سے سندھی میں یوں مخاطب ہوا۔ ساب سامنے سب سے نیچے والی تصویر کے تین ڈنڈے کس طرف ہیں۔ ہمیں سب سے اوپر کی تین لائین پڑھی جارہی تھیں۔ نیچے کی سب دھندلی تھیں۔ ہم نے اندازے سے کہا کھبے پاسے۔۔وہ پھر بولا na sain vari diso
ہم نے کہا سجے پاسے۔اس نے اس بار ذرا زور دے کر کہا۔ na sain vari diso
ہم نے کہا تھلے ۔ اب اس کا صبر جواب دے گیا تھا کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا sain ghor san diso
اب ایک ہی سمت رہ گئی تھی۔ ہم نے بڑے اعتماد سے کہا متے Matthay.۔۔
چپڑاسی صاحب بڑے خوش ہوکر بولے
“Sain doctor sahab, patient jo eye sight 6/6,aahay. Dado fit Aahay.”
ڈاکٹر صاحب ابھی بھی فون پر بڑے ہنس ہنس کر گفتگو میں مصروف تھے۔۔پتہ نہیں اس کی بات سنی یا نہیں۔ ” چپڑاسی ڈاکٹر صاحب” نے مجھے باہر انتظار کرنے کو کہا۔ چند لمحے بعد ہی وہ 6/6 کا سرٹیفکٹ میرے نام کا لے کر آگیا جس پر سول ہسپتال کے آئی اسپیشلسٹ کی مہراور دستخط جگمگا رہے تھے۔
sain munji kharchi.

Cha ji kharji
میں نے پوچھا۔
سائیں آپ فیل تھے ہم نے آپ کو پاس کرایا ۔۔اس بار ہمیں سمجھانے کی غرض سے وہ اردو میں مخاطب تھا۔ بات تو درست تھی۔۔ ہم نے 10 روپئے تھمادیے۔۔اس زمانے میں یہ ٹھیک ٹھاک رقم تھی۔ ہمیں اس سے پہلے یہ علم ہی نہیں تھا کہ ہماری دور کی نظر کمزور ہے۔ مکحمہء تعلیم کے لیٹر پر سرکاری ڈاکٹر سے ٹیسٹ کروانا ہماری مجبوری تھی۔ سرٹیفکٹ کو کسی تعویذ کی طرح سنبھالے ہم سیدھے شاہی بازار میں اپنے اسکول کے ساتھی منصور کی دکان منصور آپٹیکل پہنجے۔ منصور نے آدھا گھنٹے کے اندر ہی نہ صرف آنکھیں ٹیسٹ کیں بلکہ صحیح نمبر کی عینک بھی تیار کرکے دے دی۔ عینک کیا لگی ہر شے اجلی اجلی نظر آنے لگی۔
گھر پہنچ کر سب سے پہلے ہم نے چھت سے سڑک پار کا جائزہ لیا۔ ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ہر شے بہت صاف اور نزدیک لگ رہی تھی۔ کاش یہ عینک پہلے لگ گئی ہوتی تو جو حماقت ہم سے سرزد ہوئی وہ نہ ہوتی۔ اس دن کے بعد وہ پہلا چیرہ یا دوسرا چہرہ پھر نظر نہیں آیا:

برسوں سے دو آنکھیں میرا پیچھا کرتی رہتی ہیں
آنکھوں کو میں ساتھ لیے ہر چہرہ تکتا رہتا ہوں

سب کے چہرے پڑھتے پڑھتے خود کو پڑھنا بھول گیا
اب ہر چہرہ دیکھ کے پہلے اپنا چہرہ پڑھتا ہوں
فیروز ناطق خسرو
( جاری ہے)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International