تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
سوڈان میں خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے۔خانہ جنگی کی وجہ غیر ملکی مداخلت بھی ہے اوراندرونی معاملات بھی بگڑے ہوئے ہیں۔سوڈان میں وسیع پیمانے پرانسانی قتل عام جاری ہے۔یہ خانہ جنگی 15 اپریل 2023 کو شروع ہوئی اورابھی تک ختم نہیں ہو رہی۔سوڈانی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورس کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں، جن میں کروڑوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 40 ہزار افراد مارےجا چکے ہیں،ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ان جھڑپوں کی وجہ سے ایک کروڑچالیس لاکھ افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔سوڈان میں خانہ جنگی کی وجہ سے وسیع پیمانے پر انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔انسانوں کی زندگیاں شدید مشکلات میں پھنس چکی ہیں۔میڈیا اطلاعات کے مطابق ریپڈ سپورٹ فورس لوگوں کے گھروں میں گھس کران کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔سوڈانی فوج اور ریپڈسپورٹ فورس،دونوں کی کوشش جاری ہے کہ ملک کا کنٹرول حاصل کر لیا جائے۔حکومت کی طرف سے شہریوں کے بدلہ لینے کا اعلان کیا گیا ہے جس سے علم ہوتا ہے کہ جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور کافی عرصہ جاری رہے گی۔اس خانہ جنگی نےخواتین اور بچوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔علاج معالجے کی سہولیات ناپید ہیں جس کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو چکا ہے۔سوڈانی اپنے ملک میں ہی مہاجر ہو گئے ہیں اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔خواتین کو جنسی تشدد کا بھی سامنا ہےاور جسمانی تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہو رہی ہے،جس کی وجہ سے مستقبل میں بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔جو بچے زندہ بچےہوئےہیں، وہ مستقبل میں نفسیاتی اثرات کا شکار رہیں گے۔بہت سے افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اجتماعی پھانسیاں بھی دی جا رہی ہیں۔بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں۔خوراک کا بھی وسیع بحران پیدا ہو چکا ہے اور دیگر انسانی ضروریات کی بھی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔سوڈانی فوج طاقتورہونے کے باوجود بھی مخالفین پر کنٹرول حاصل کرنے میں اس لیے بھی ناکام ہو رہی ہے کیونکہ مخالف گروہ بھی جدید اسلحے سے لیس ہیں۔جدید اسلحہ بے دھڑک استعمال کیا جا رہا ہے،جس کی وجہ سے بد امنی ختم ہونے میں نہیں آرہی۔
سوڈان میں امن آسانی سے نہیں آسکے گا کیونکہ بہت سی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ سوڈان پرامن رہے۔یہ بھی درست ہے کہ سوڈانیوں کی اپنی غلطیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سوڈان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوئی۔سابق صدر عمر البشیر پر بھی سنگین نوعیت کے الزامات لگے ہیں،جو کہ درست بھی ہیں۔عمر البشیر نے مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ قتل بھی کیا۔اب صورتحال بہت سنگین ہو چکی ہے،اس کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ سال لگ سکتے ہیں۔ہو سکتا ہے سوڈان کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر کوئی دوسری طاقت اس پرحملہ آورہوجائے۔سوڈان کی دولت کئی طاقتوں کے لیے کشش کا سبب بنی ہوئی ہے۔اقوام متحدہ کو بھی امن کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے،لیکن اس امن کے فوائد کوئی اور طاقت سمیٹے گی۔فوری طور پر امن آبھی جائے تو سوڈان کی بحالی آسان کام نہیں۔ سوڈان کی بحالی کے لیے لمبا عرصہ درکار ہوگا اور وسیع سرمائے کی بھی ضرورت ہوگی۔ہو سکتا ہے کوئی بڑی طاقت سوڈان کی مدد کرے اور بدلے میں بہت کچھ حاصل کرے۔کسی بھی ملک میں اگر ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو آسانی سے کنٹرول نہیں ہوتی۔صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے بیرونی مدد بھی درکار ہوتی ہے۔بیرونی مدد حاصل ہو تو بدلے میں بہت کچھ دینا پڑتا ہے۔سوڈان میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک جانا بھی بہت ہی مشکل ہے،کیونکہ ڈکیتیاں بھی ہو رہی ہیں اور دیگر مشکلات بھی ہیں۔خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی شہریوں کو کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ملتا۔
سوڈان میں جب تک امن نہیں آجاتا،اس وقت تک یہی صورتحال برقرار رہے گی۔اقوام متحدہ کو سوڈان کے حالات کو سلجھانا چاہیے تھا مگر اقوام متحدہ کا کردار نظر نہیں آرہا۔سوڈانیوں کو خود بھی امن کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔پاکستان اور دیگر ریاستوں کو سوڈان کے حالات بہتر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔یہ کردار چین،سعودی عرب اور کچھ دیگر ممالک بھی بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔ سوڈان میں نسل انسانی کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں،بہتر یہی ہے کہ فوری طور پر امن کے لیے کوششیں شروع کر دینی چاہیے۔ہمسایہ ریاستیں بھی اپنا کردار ادا کریں،ورنہ ان کے لیے بھی خاصی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔سوڈانی فوج عوام میں اپنی اہمیت کھو چکی ہے اس لیے عوامی حلقوں کی طرف سے خاص پذیرائی نہیں مل رہی۔یہ ان کے لیے بھی سبق ہے جو عوامی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر اپنے مفاد کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ایک انسانی جان بہت ہی قیمتی ہوتی ہے،لیکن سوڈان میں بہت سے افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔انسانی بقا اور امن کے لیے خانہ جنگی کو عالمی برادری روکنے کی کوشش کرے۔
کسی بھی ملک کے لیے خانہ جنگی بہت ہی خطرناک ہوتی ہے۔بہت سے حکمران سمجھتے ہیں کہ وہ عوام پر طاقت کے ذریعے قبضہ رکھ سکتے ہیں لیکن آخر کار ان کو بدترین نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔سوڈان میں بھی اگر انسانی حقوق کی پامالی نہ ہوتی اور سیاسی طور پر آزادی میسر ہوتی تو ایسے حالات کبھی پیدا نہ ہوتے۔جو حکومتیں اپنے شہریوں کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں اور انسانی حقوق کو پامال نہیں کرتی،ان کو عوام مکمل سپورٹ کرتی ہے۔سوڈان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے،اگر کوئی بھی حکومت انسانی حقوق کا خیال نہیں رکھتی،اس کو بھی عوام تخت سے اتار دیتی ہے۔دعا ہے کہ سوڈان میں امن آجائے،تاکہ بے شمار انسان قتل ہونے سے بچ سکیں اور جو بچےہوئےہیں وہ اپنی اپنی مرضی سے زندگیاں گزار سکیں۔
Leave a Reply