تحریر: طارق محمود
فاونڈر ایکسپرٹ میرج بیورو انٹرنیشنل
آج کے دور کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ شادیاں لمبی نہیں چل رہیں۔ کبھی ایک رشتہ زندگی بھر کا ساتھ سمجھی جاتی تھی لیکن اب اکثر نکاح چند مہینوں یا ایک دو سال سے زیادہ نہیں چل پاتے۔ پہلے لوگوں کو سوسائٹی کا دباؤ ہوتا کہ علیحدگی کی صورت میں کیا کہیں گے، یا بچوں کے مستقبل کا کیا بنے گا۔ لیکن اب یہ خوف کم ہوگیا ہے۔ لڑکی ہو یا لڑکا، کوئی بھی معمولی بات پر رشتہ توڑ دینے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ آخر شادیوں کے کم عرصے میں ٹوٹنے کے پیچھے اصل وجوہات کیا ہیں؟
برداشت کی کمی
آج کی لڑکی باشعور اور پڑھی لکھی ضرور ہے لیکن شادی کے بعد نئے ماحول میں ڈھلنے کے عمل کو صبر سے برداشت نہیں کر پاتی۔ معمولی اختلافات بھی بڑے لگتے ہیں۔ شوہر کی بےتوجہی یا ساس کے تلخ جملے دل پر چوٹ کی طرح لگتے ہیں اور نتیجہ علیحدگی کی شکل میں نکلتا ہے۔
نوجوانوں کی ناپختگی
اکثر نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ شادی صرف ایک خواہش پوری کرنے کا نام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شادی کے ساتھ ذمہ داریاں، قربانیاں اور ایڈجسٹمنٹ بھی لازم ہیں۔ جب شوہر اپنی آزادی محدود دیکھتے ہیں تو ضد اور غصے میں رشتے کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔
غیر حقیقی توقعات
سوشل میڈیا، ڈرامے اور فلموں نے شادی کو خوابناک رومانس کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن جب اصل زندگی کے مسائل، ذمہ داریاں اور مشکلات سامنے آتی ہیں تو وہ خواب ٹوٹ جاتے ہیں اور رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔
مالی مسائل
مہنگائی اور روزگار کے دباؤ نے جوڑوں پر اضافی بوجھ ڈال دیا ہے۔ پیسوں کے جھگڑے یا معیاری لائف اسٹائل نہ ملنے کی شکایات اکثر رشتے کو نازک موڑ پر لے آتی ہیں۔
خاندانی مداخلت
ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد جوڑے کو آزادی اور اسپیس نہیں دی جاتی۔ سسرال یا میکے کی مداخلت چھوٹی باتوں کو بڑا بنا دیتی ہے اور نئے رشتے کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے۔
کمیونیکیشن گیپ
اکثر مسائل اس لیے بڑھ جاتے ہیں کہ فریقین ایک دوسرے سے کھل کر بات نہیں کرتے۔ غصہ، خاموشی اور دل میں کدورت رکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ مزید بگڑ جاتا ہے۔
صبر اور وقت کی کمی
شادی کے ابتدائی سال سب سے مشکل ہوتے ہیں کیونکہ دونوں کو ایک دوسرے کی عادات سمجھنے اور ایڈجسٹ کرنے کا وقت چاہیے ہوتا ہے۔ مگر آج کے دور میں جلد بازی زیادہ ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر فوراً علیحدگی کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔
نتیجہ
شادی ایک پودے کی مانند ہے، جسے دونوں مل کر پانی دیتے ہیں، سنبھالتے ہیں اور دھوپ چھاؤں سہتے ہیں۔ اگر ایک ہاتھ بھی پیچھے ہٹ جائے تو پودا مرجھا جاتا ہے۔ اسی طرح رشتہ بھی صرف محبت سے نہیں چلتا بلکہ صبر، احساس، قربانی اور پختگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں باپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف لڑکیوں کو نہیں بلکہ لڑکوں کو بھی شادی کے تقاضے سکھائیں۔ بیوی کو روٹی کپڑا مکان دینا کافی نہیں، بلکہ اس کی جذباتی اور نفسیاتی ضروریات کا خیال رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔
سمجھ طلب معاملات
1. شادی سے پہلے دونوں فریقین کو عائلی زندگی کے آداب اور ذمہ داریوں کی تربیت دی جائے۔
2. جوڑے کو مسائل حل کرنے کے لیے بات چیت کی عادت ڈالنی چاہیے۔
3. والدین اور رشتہ دار شادی کے بعد مداخلت کم کریں۔
4. مالی حقیقت پسندی اختیار کی جائے اور آسائشوں کے بجائے صبر سے آغاز ہو۔
5. اہم فیصلے باہمی مشاورت سے کیے جائیں۔
6. علیحدگی سے پہلے میرج کونسلر یا ماہرِ نفسیات کی مدد لی جائے۔
Leave a Reply